نسیمؔ اجمل کی دوغزلیں
عروضی تجزیہ
اسوقت ہماری گفتگو کااصل موضوع "سہ ماہی ذہن جدید شمارہ نمبر60(مارچ۔اگسٹ 2011)صفحہ نمبر 106میں نسیم اجمل کی شائع ہوئی دوخوبصورت غزلیں ہیںجس کے پیش نظریہ پوچھا گیا تھا کہ کیا دونوں غزلیں جدید عروض کی بحروں میںلکھی گئی ہیں۔جو اس طرح ہیں
1)مفاعیلن،فعولن جدیداصطلاحی نام بحرہزج متقارب
2)فاعِلن مفاعیلن بحرمتدارک ہزج
جومیرے لیے بہت دنوں بعد عروضی مضمون لکھنے کے لیے محرک بنی ہیں اکثر میرے ادب نوازاحباب کی یہ فرمائشیں رہی ہیں کہ میں اس طرح کے کلام پرکچھ لکھوںجس سے عروضی وفنی نکات سامنے آسکیں اورعروض جیسے خشک موضوع کوسمجھنے میں آسانی اوردلچسپی پیداہو۔
یوں ہی کسی کے کلام پررائے زنی کرنا ہماراکارنہیں ہے لیکن کچھ ایسی باتیں جن سے کچھ عروضی وفنی پہلونکل آتے ہیں تواس پرقلم اٹھانا نہ صرف ضروری ہے بلکہ ان لوگوں کاحق بنتاہے جوعروض جیسے دقیق موضوع پر تھوڑا بہت صحیح علم رکھتے ہیں اس طرح عروض جیسے خشک موضوع کوسمجھنے میں یہ مضامین ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں۔علام سحرعشق آبادی اوران کے جانشین عزیز کہے جانے والے ڈاکٹر زارعلامی نے اس فن میں اپنے صحیح نہج رکھنے کی بہترین سعی کی تھی۔
ذہنِ جدید کے شمارے میں نسیم اجمل کی دونوں غزلیں جن چھوٹی بحروں میں موزوں ہوئی ہیں وہ یہ ہیں۔
غزل نمبر1
نظر سرشار اس کی
صدا بیدار اس کی
دکھادے کوئی اجملؔ
جھلک اک بار اس کی
وزن۔مفاعیلن۔فعولن
غزل2
شورسا اٹھا مجھ میں
جانے کیا ہوا مجھ میں
تو کہیں نہیں اجملؔ
ڈھوندتا ہے کیا مجھ میں
وزن۔فاعلن،مفاعیلن
شاعر کاپتہ اس شمارے میں نہیں شائع ہواہے۔کہ جن سے رابطہ کرکے پوچھاجاسکے کہ یہ دونوں غزلیں کون سی بحورواوزان میں تقطیع ہوتی ہیں۔جب ان دوغزلوں کا جائزہ لیاجائے تو پہلی ہی نظرمیں جوبات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ متذکرہ دونوں غزلیں بحرہزج مربع مزاحف میں بہ حسن وخوبی قطع ہوتی ہیں کوئی ایک آدھ شعر بھی ناموزوں کلام کے زمرے میں نہیں آتا۔اس میں کوئی ایسافنی نقص بھی نہیں ہے۔پھرکیاوجہ ہے اس پرکچھ لکھاجائے۔بات صرف اتنی عرض ہے کہ بعض حضرات لاشعوری طورپہ جن کوعروض کی سدبدھ بھی نہیں ہوتی۔ان دونوں غزلوں کوسالم بحروں میں تقطیع کرنے کی کوشش کرتے ہیں یاجدید اصطلاحات گھڑلیتے ہیں موصوف اس بات کی مکمل احتیاط کرتے ہوئے نظرآتے ہیں کہ کسی بھی مصرع میں تسبیغ یعنی ایک ساکن حرف کوبھی زائدنہیں کیا ۔جس سے یہ گمانغالب ہوتاہے کہ یہ غزلیں سالم بحروں میں لکھی گئی ہیں یہ ماناہوا اصول ہے کہ کسی بھی سالم رکن کے آخرمیں تسبیغ واذالہ کاعمل کارشنیع ہے۔ڈاکٹرکمال احمدصدیقی ایک ایسے ہیں جنہوں نے اپنی کتاب"آہنگ وعروض " میں ایسا کرتے ہوئے نظرآتے ہیں جوکہ قاعدہ عروض سے سراسر بے اعتنائی ہی ہے۔اس طرح کرنے سے جوایک قبح پیداہوتی ہے وہ یہ کہ سالم رکن خماسی سے شش حرفی،سباعی رکن سے ہشت حرفی کی شکل اختیار کرلیتاہے۔اوراس طرح سالم رکن کی اصل ہئیت برقرارنہیں رہتی۔
مضمون کومزید طول نہ دیتے ہوئے تشنگان عروض کی خدمت میں مختصراً عرض کیے دیتاہوں کہ جدید یاروایتی عروض کی اصطلاح نہ صرف بے بنیاد اوربالکل غیرمناسب ہے بلکہ یہ تاویل معقول بھی نہیں عروضِ خلیلؔ وطوسیؔ سے سراسر چشم پوشی اورصحیح عروض سے ہماری کوتاہ فہمی وکم مائگی کابین ثبوت بھی ہے ۔عظمت اللہ خان نے ایک ایسی ہی کوشش کی تھی کہ وہ ہندی پنگل شاستر کواردو عروض کے بالمقابل لاناچاہتے تھے جوکلام اردو کے مزاج سے میل نہیں کھا سکا۔اورناکام ہوگیا۔گاہے گاہے اردو عروض کی تسہیل کاری کے نام پر بے جا تصرفات ہوتی رہی ہیں۔کبھی جدید مصطلحات ،کبھی نئی ایجادات واختراعات کے نام پرشعوری و لاشعوری پرکوئی نہ کوئی نئی چیز اس فن میں درآجاتی ہے۔اورہم اس خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ہم نے بھی عروض جیسے دقیق میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیاہے اورطرفہ تماشہ دیکھئے کہ اس پرسال بھرمباحثہ بھی چلتے ہیں آخرکار نتائج ندارد۔۔۔۔۔۔۔لیکن زبردست التباس کی راہیں کھل جاتی ہیں۔یہ دونوں اوزان صحیح عروض سے ماخوذ ہیں۔لیکن انہیں جدید عروض کے تحت اس طرح لکھناکہ
1)فعولن فاعِلاتن
2)فاعِ لن مفاعیلن
غزل نمبر1 ،نظرسرشار اس کی" کو بحرعریض مربع سالم کے ارکان مفاعیلن،فعولن میں قطع کرسکتے ہیں۔لیکن دوسری غزل شورسا اٹھامجھ میں" ۔فاعلن،مفاعیلن،کوسالم بحرنہیں کہاجاسکتا۔اورنہ ہی کسی بھی دوسری سالم بحر میں یہ غزل تقطیع ہوتی ہے۔
جدیدعلمائے عروض کی یہ کرشمہ سازیاں دیکھنے کوملتی ہیں جس سے حیرانگی ہوتی ہے جدیداوزان کے تحت جواوزان متعین کرکے وہ جونام تجویز کرتے ہیں وہ عروض خلیل کے منافی نہیں ہوتے۔
1)فعولن،فاعلاتن
2)فاع لن مفاعیلن
یہ دونوں اوزان کسی بحرکے ارکان نہیں ہیں اورنہ ہی ان کی کوئی
عروضی حیثیت ہے۔جناب کندن سنگھ اراولی ماہرعروضیوں میں سے ہیں دائرہ مختلفہ مثمنہ میں جن 2بحروں کا اضافہ کیا ہے وہ دراصل اس دائرے کے اجزائے اولیہ کے شرائط کوپورانہیں کرتے،جس میں سے ایک کے ارکان یہ بھی ہیں فعولن،فاعلاتن جسے بحرخلیل کانام دیاگیاہے۔اسی طرح دائرہ متقابلہ کے تحت آٹھ بحرین وضع کی ہیں جس کی ابتدا بحرعدیم نامی بحرسےکیاگیاہے ارکان یہ ہیں فاع لن مفاعیلن، حقیقت یہ ہے کہ دائرہ کی ابتداوتدمجموع سے ہی ہونی چاہئے۔
صحیح عروضی قواعد کی روشنی میں ہمیں جواوزان حاصل ہوں گے وہ مندرجہ ذیل ہیں جن پر کسی قسم کاعروضی وفنی اعتراض واردنہیں ہوتا
غزل نمبر1 نطر سرشار اس کی
اوزان مع اصطلاحی نام
1)مفاعیلن۔فعولن۔بحرعریض مربع سالم
2))مفاعیلن۔فعولن۔بحرعریض مربع سالم محذوف الآخر
3)مفاعیلن۔فعولن۔بحروافر مربع معصوب،مقطوف الآخر
وزن بمبر1 کومرجح حاصل ہے کوئی وزن نمبر2یا3میں گردانتاہے تو اسے غلط نہیں کہاجاسکتا،
غزل2 ؎ شورسا اٹھا مجھ میں
اوزان مع اصطلاحی نام
1)فاعلن۔مفاعیلن۔۔بحرہزج مربع اشترسالم الآخر
2))فاع لات۔مفعولن۔بحرمقتضب مربع مطوی ،مطوی مسکن/مقطوع الآخر
3)فاعلن۔مفاعیلن۔بحروافر مربع اجم،معصوب الآخر
4)فاعلات۔فعلاتن۔بحر خفیف مکفوف،مقصور الآخر
یہ ذہن میں رہے کہ فاعلات فعلاتن کوکہنے والے اس بحررمل مربع مکفوف مخبون مسکن کہہ سکتے ہیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ بحررمل کے ارکان فاعلاتن فاعلاتن کے تن۔فا میں حکم معاقبہ صادرہوتاہے جس کے تحت متواتر دوسبین خفیف جہاں آتے ہیں ان کے ساکنوں کوبہ یک وقت گرانا جائزودرست نہیں ہے لہٰذا اس طرح کاکوئی وزن بحررمل سے حاصل نہیں کیاجاسکتا۔
واضح ہوکہ اردوکاعروض ایک جامع عروض ہے خلیل بن احمد نے بڑے ہی سائنٹفک طرزپرایجادکیا ہے آجکل ایجادات واختراعات کے طورپرنئے نئے تجربات کئے جارہے ہیں وہ مضحکہ خیزہی نہیں بلکہ فن میں دست درازی ہے نئے بحرواوزان کوچندفروعات سے ترتیب دیتے ہیں یادومختلف بحروں کے ارکان کوملاکر یوں تحریرکرتے ہیں مثلاً ،فاعلن۔مفاعیلن بحرمتدارک ہزج مرکب۔
اس پر طرہ یہ کہ آجکل ایساکیاجارہاہے اوریہ دلیل بھی خوب ہے۔
0 Comments