کلام اقبالؔ کاعروضی تجزیہ قسط اول

کلام اقبالؔ کاعروضی تجزیہ

اقبال ایک عظیم شاعرہے اس پر کس کوکلام ہوسکتاہے۔علامہ اقبال کی شاعرانہ عظمت کااسی سےزندہ لگایا جاسکتاہے کہ اب تک اقبال پرکیاکچھ نہیں لکھا گیاہے۔ بہت کچھ لکھاگیاہے۔ لکھاجارہاہے۔ اورآگے بھی لکھاجائے گا۔
 حقیقت یہ ہے کہ ہرلکھنے والے نے اقبالؔ کے حوالے سے لکھنے کواپناحق جانا۔اوریہ شعوری کوشش ہمیشہ سے ہے اوررہے گی۔اوراقبال کے شعری کائنات کاسفرکرنے والاوہاںسے کوئی ستارہ توکوئی خاک لے آتاہے۔ان مختصرتمہیدی کلمات کے ساتھ عرض کرناچاہوں گاکہ میرے اس مضمون کامقصودہرگزکسی کوزک پہنچانانہیں بلکہ کلام اقبالؔ کاعروضی تجزیہ منصفانہ طورسے پیش کرناہے۔میرے زیرِمطالعہ عروضی تجزیاتی دومضامین ہیں ۔دومعتبرشخصیات کے خامہ فرسائی کا نتیجہ ہے۔
1)اقبالؔ کے اردوکلام کاعروضی مطالعہ،ازگیان چندجین (مشمولہ "اقبال کافن"مرتبہ گوپی چندنارنگ سن اشاعت سوم،2001ء)
2)اقبال کاعروضی نظام ،ازشمس الرحمٰن فاروقی(عروض،آہنگ وبیان،سن اشاعت 2004ء)
گیان چندجین اورفاروقی صاحب اس پہلوپرجوروشنی ڈالی ہے ،قابل ستائش ہے،گیان چندصاحب کے جدولِ اوزانِ اشعار یانظموں میں بحروں کے اصطلاحی نام اورارکانِ اوزان کے املا غلط تحریرکیے گئے ہیں،اورکلامِ اقبالؔ کوایک دوغیرحقیقی اوزان کے تحت درج کیاگیاہے جس کی وجہ سے ان کے  جدول میں دیئے گئے بحریں واوزان کی تعداد وتناسب اشعارمیں فرق آنے کے امکانات سے انکارکیسے کیاجاسکتاہے۔
شمس الرحمان فاروقی صا حب کامضمون ظاہرہےاس مضمون کے بعدلکھا گیا ہے ۔اس میں وہی ساری پیچدگیاں پائی جاتی ہیں۔جوگیان چندجین کے یہاں ہیں۔ایسی صورت میں ایک واضح ،مدلل ومقعول مبسوط بحث درکارہے اسی بات کے پیش نظر ان دونوں مضامین کاازسر نومطالعہ کیااوران کافنی تجزیہ ومحاکمہ ضروری سمجھا۔
گیان چندجین صاحب کے مضمون سے جونکات سامنے آتے ہیں وہ یہ
ہیں
1)اقبالؔ نے اپنے اردوکلام کے لیے 24اوزان کااستعمال کیاہے۔
2)فارسی میں بھی اقبال نے 24 اوزان کے علاوہ کسی اور وزن میں کچھ نہیں کہابلکہ ان سب میں بھی نہیں۔
3)ایک ہندی وزن سرسی کواقبال نے برتاہے۔
فاروقی صاحب کے مضمون سے جوباتیں سامنے آتی ہیں وہ یہ ہیں
1) اقبالؔ نے اپنے اردو کلام میں صرف 24بحریں استعمال کی ہیں۔
2)ایک آدھ کے علاوہ اقبال نےتمام بحریں وہی استعمال کی ہیں جوتمام اردوشاعری میں عام اورمروج ہیں۔
3)ایک ہندی کاسرسی چھنداقبالؔ نے برتاہے۔
ان دونوں مضامین میں کلام اقبال کی موزونیت کوزیربحث لایانہیں گیاہے علاوہ اس کے کلام کے دیگرلوازم ومحاسن پریہ بحث خوب معلوم ہوتی ہے۔نہایت افسوس کی بات ہے دونوں مضامین میں فنی وعروضی تسامحات درآگئی ہیں۔جن کی نشاندہی ازحدضروری ہے،
ڈاکٹرگیان چند صاحب نے علامہ اقبال کے تمام مجموعہ ہاے کلام اردو سے یہ نتیجہ اخذکیاہے کہ اقبالؔ نے کل 24اوزان میں اپنے کلام کوکہاہے اسی بات کی وضاحت شمس الرحمان فاروقی صاحب کے مضمون میں بھی ہوجاتی ہے۔ مہرتصدیق کاکام کرتی ہے۔
ان مضامین کےمطالعہ سے یہ بات توواضح ہوجاتی ہے کہ اقبال کاکلام اردوکل دس بحروں ،رمل، ہزج، رجز، کامل، متقارب، متدارک، مضارع، مجتث، منسرح، خفیف کے 23اوزان اورایک ہندی وزن سرسی چھندپرمحیط ہے۔
کلام اقبالؔ کے عمدہ ہونے میں جہاں دیگرشعری لوازمات ومحاسنات ،الفاظ کی بندش،مطالعہ ومشاہدہ،فکرکی گہرائی وگیرائی ،خیالات میں بلندی اورطرزِ اظہار کو دخل ضرور ہے وہیں ان کے کلام میں بحریں واوزان کے برتنے کاسلیقہ خاص ہے۔ معلوم ہوناچاہئے کہ بحریں واوزان اپنے اندرایک مخصوص ترنم اورمزاج رکھتے ہیں اوروہ کمال شاعر پرجاتاہے کہ وہ کس سلیقہ سے برتتاہے۔کلام اقبال کی خوش آہنگی میں بحرواوزان کے انتخاب اوراس کے برتنے کولے کر ایک الگ بحث ہوسکتی ہے۔
کلام اقبال کے مطالعہ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے جوان کے بلندی کلام کی وجہ سے نظرنہیں آتی، وہ یہ کہ اقبال فن عروض سے دوسرے شعراکی طرح اپنے دامن کوبچاتے نظر آتے ہیں۔
اقبال ؔ تلوک چندمحرومؔ سے گفتگو کے دوران عروض کے بارے میںجو کہاتھا ،محرومؔنےآزاد ؔسےاس کاذکربھی کیاتھا۔میں نے عروض سبقاً سبقاً پڑھا ہے۔"ویسے شاعروں کے لیے عروض جاننے کی ضرورت نہیں ہاں استادی شاگردی کے لئے عروض جاننا ضروری ہے"۔(نقوش شخصیات نمبر ص965)
جب اقبال خوداعتراف کرتے ہیں کہ وہ عروض کوضرورتِ شاعری کی حدتک سیکھاہے ۔اب وہ اقبال اپنی شاعری میں عروضی تجربہ کیوں کرکریں گے؟۔یہ کہناسراسر ظلم اوربہتان ہے کہ اقبال نے عروضی تجربے کیے ہیں اوریہ بھی غلط ہے کہ اقبال کاکلام صرف ایک جگہ مخدوش پایاجاتاہے۔
مطالعۂ کلام اقبال سے یہ بات بھی روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ اقبال نے اپنے بیش بہا کلام چاروں مجموعہ ہاے کلام اردو "بانگ درا ،بالِ جبرئیل، ضرب کلیم، اورارمغان حجاز" کوصرف چنداوزان پرمحیط رکھاہے یہاں تک وہ اپنی طویل تر نظموں میں بھی رعایتی اوزان(جہاں اس کی خوب گنجائش نکلتی ہے)کافائدہ نہیں اٹھاتے یعنی وہ ایک آدھ جگہ چھوڑکر عمل تسکین اوسط اورعمل تخنیق کوبروئے کارلاکر زیادہ تجربہ نہیں کرپائے۔
اقبال کی عروض دانی کا کیاعالم ہے؟ یہ ایک بالکل الگ بحث ہے لیکن 
یہ ضرورکہاجاسکتاہے کہ اقبال عروض سے دورہی رہے۔اوردوسرے شعرا کی طرح مروج ومستعمل بحریں واوزان میں ہی شاعری کی۔البتہ یہاں یہ کہنا بہترہوگاکہ اس کاایک فائدہ ضرورہوا کہ اقبالؔ جیساعظیم شاعراردوزبان کو حاصل ہوا۔
میری ناقص فکریہ ہے کہ اگروہ عروض میں سرکھپاتے توشایداتنی اچھی شاعری کبھی نہیں کرپاتے۔ مجھے اس طرح یہ بھی نہیں کہناہے کہ فن سے بے اعتنائی برتنا اچھی شاعری کی ضمانت ہے یاوہی اچھے شاعررہے ہیں جو عروض سے نابلدرہے ہیں ۔اگرایساہوتاتو آج نثری شاعری کامقام کچھ اورہوتا۔چندکلماتِ تمہیدکے بعدیہ کہاجائے تو کیاغلط ہے کہ اچھی شاعری وہ ہے جس میں فنی خوبیاں نہ ہوں توفنی خامیاں بھی نہ ہوں۔
اچھی یابڑی شاعری کایہ پیمانہ بھی نہیں کہ شاعرزیادہ سے زیادہ بحریں اوراوزان کااستعمال کیاہو۔اقبالؔ سے پہلے بھی بڑے شاعرہوئے ہیں جس میں غالب کانام لیاجاسکتاہے کہ ان کاکلام بھی صرف چندرواں بحروں پرمشتمل ہے۔متذکرہ دونوں ہی مضامین تحقیقی نوعیت کے ہیں۔اس میں دونوں حضرات نے اپنے طور پرکلام اقبال کاعروضی جائزہ لینے کی بہترین سعی کئے ہیں۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس میں عروضی جائزہ کامطلب یہ نہیں نکالناچاہئے کہ انہوں نے علامہ اقبال کے موزوں یانا موزوں کلام کاتجزیہ کیاہو۔اوردونوں ہی فاضل مصنفین اس بات پر متفق ہیں کہ ا قبال کے صرف ایک مصرعہ میں عروضی غلطی پاتے ہیں۔
دونوں تجزیے ومحاکمے بہت ساری اغلاط کے درکھولتے ہیں جونہ صرف گمراہی پیداکرتے ہیں بلکہ اقبال کی بلنداورنپی تلی شاعری کوبھی مشکوک بناکرچھوڑدیتی ہیں۔نہیں معلوم ان کے نزدیک مندرجہ ذیل یہ مصرعے کیاعروضی وفنی حیثیت رکھتے ہیں۔
1؎سلسلۂ روز وشب ،نقش گرحادثات
2؎قطرۂ خونِ جگر سِل کوبناتاہے دل
3؎نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگرکے بغیر
یہ تینوں ہی مصرعے اقبال کی مشہورنظم"مسجدقرطبہ" سے ہیں۔ظاہر ہے کہ ایک نظم سے ہیں،لیکن مختلف الوزن میں ہیں،بالترتیب مصرعہ نمبر1 بحروزن اوراصطلاحی نام ہے۔
بحررجز مثمن مطوی ،مرفوع،مطوی،مطوی اعرج
مفتعِلن، فاعلن،مفتعِلن،فاعِ لان
مصرعہ نمبر ۲ ؛۔ بحروزن اوراصطلاحی نام۔
بحربسیط مثمن
مطوی ،سالم ، مطوی، سالم
مفتعِلن، فاعِلن، مفتعِلن، فاعِلن، 
(اس حشواول میں اذالہ کی گنجائش تودورکی بات ہے اس کے عروض  وضرب میں بھی اذالہ کی اجازت نہیں بلکہ یہ مسلمہ کلیہ ہے کی کسی بھی سالم رکن  پرتسبیغ واذالہ امرممتنع ہے)
مصرعہ نمبر۳ بحرووزن اوراصطلاحی نام
بحرمنسرح مثمن۔
مطوی مطوی مطوی ،مطوی موقوف
مفتعِلن،فاعِ لاتُ،مفتعِلن،فاعِ لان
گیان چندجین اپنے اس قیمتی مضمون میں جدول نمبر۱ کے وزن نمبر۱۱ پرایک ہی جگہ دو اوزان دیے ہیں۔اورصفحہ نمبر ۱۰۵ پرجس طرح اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں وہ بڑی ہی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے۔
بسیط میں فاعِلن کی جگہ فاعِلات نہیں لایاجاسکتا لیکن منسرح میں دونوں جگہ 
فاعِلاتُ کوبدل کر فاعِلن بھی لاسکتے ہیں۔اقبالؔ نے فاعِلن کے علاوہ فاعِلات بھی باندھاہے مثلاً 
نقش ہیں سب ناتمام، خون جگرکے بغیر
نغمہ ہے سوداے خام،خون جگرکے بغیر
اس لیے ان کی تقطیع بسیط میں نہ کرکے منسرح میں کی جائے ۔
اورپھرصفحہ نمبر ۱۰۶پرکچھ یوں رقم طراز ہیں۔
یہ وزن گیارہویں وزن مفتعِلن،فاعِلن، مفتعِلن،فاعِلن، کاجوڑی دارہے حالانکہ وہ منسرح یابسیط میں تھا اوریہ رجز میں ہے لیکن دونوں کامزاج یکساںہے۔
گیان چندجین صاحب نے اسے کون سے کلیہ یاقاعدہ کے تحت کہاوہی جانیں۔بڑےلوگوں کی بڑی بات ہے۔ان کی چھوٹی بات بھی چھوٹی نہیں ہوتی۔اسی طرح ان کی چھوٹی غلطی بھی چھوٹی نہیں آتی۔ان کی کھینچی گئی ہرآڑی ترچھی لکیریں بھی مستندومعتبر شکل اختیار کرجاتی ہیں۔اس لیے ان حضرات کواس طرح کی گمراہ کن باتوں سے جہاں تک ہوسکے اجتناب کرناچاہئے۔گیان چیندجین صاحب کلام اقبالؔ کاصحیح طور پرفنی محاکمہ نہیں کرپائے۔اورمہمل سی وضاحت لکھ کر التباس پیداکرنے کی کوشش کی ہے۔
پھراب یہاں یہ دیکھناہوگاکہ اقبال کی یہ نظم کس بحر کے مزاحف وزن میں تقطیع ہوتی ہے۔تینوں اوزان میں تو تقطیع نہیں کی جاسکتی ۔اس نظم کے بعض مصرعے بحربسیط میں قطع ہوتے ہیں توبعض بحررجز کے مزاحف وزن  میں توکچھ مصرعے ایسے ہیں جوبحرمنسرح میں چلے جاتے ہیں۔اوراسے کوئی عروضی تجربہ کہناہےتوکہے لیکن ازروئے عروض یہ بالکل صحیح نہیں ہے۔اورایسے مصاریع ناموزوں کلام کے زمرے میں آتے ہیں۔
موصوف کابحربسیط کے فاعِلن کے متعلق لکھناصحیح ہے کہ اس کے عروض وضرب میں ایک ساکن حرف زائدیعنی اذالہ کاعمل نہیں کیاجاسکتااس لیے فاعِلن"یہاں رکنِ سالم ہے کسی بھی سالم رکن پرتسبیغ یااذالہ کاعمل کرناامرممتنع ہے اب اس کے حشومیں ایک حرف متحرک زائدکرناکیسے برداشت کیاجاسکتاہے۔
بحررجزکے مزاحف وزن میں بھی حشواول کے فاعلن پراذالہ کاعمل نہیں کیاجاسکتا۔اوراقبال کی نظموں میں جہاں بھی ایساکیاگیاہے وہ حشواول میں ہواہے جوقاعدہ عروض سے غلط قراردیاجاتاہے۔
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر تمام کامیم ساقط الوزن ہوا۔حشوین میں ساکن دوم ہمیشہ ہی متحرک بن کرواردہوتاہےیہاں اسے کسی بھی صورت موقوف نہیں بناسکتے۔جب تک یہ نظم ہئیت کے اعتبار سے مسمط نہیں ہوتی یاوزن مضاعف نہیں کرلیاجاتالیکن یہاں بھی سالم رکن پرتسبیغ واذالہ نہیں ہوسکتا۔
بحرمنسرح کے فاعِ لات (حشواول میں وارد)اس رکن کاآخر حرف متحرک ہے نہ اسے ساکن کرسکتے ہیں اورنہ گراسکتے ہیں بحرمنسرح کے رکن دوم کی فرع فاعِ لات(مطوی)حاصل کرنے کے لئے مفعولات سے چوتھاحرف ساکن گرایاجاتاہے۔
مفع لات بچتاہے جسے مانوس رکن فاعِ لات سے بدل لیتے ہیں اوراس کے آخری حرف "ت" کوگرائے جانے کی کیاتُک ہے۔
موصوف کاکہنا روشِ عروض سے ہٹ کرہے بالکل اس بات کو وہ سمجھ نہیں پائے ہیں اوردرمیانی راہ نکالے ہوئے ہیں۔اوربغیر اصول فاعِ لات کوفاعِ لن اورفاعِ لن کوفاعِ لات کرتے جاتے ہیں۔
بات واضح ہوگئی کہ یہ تینوں اوزان نہ صرف مختلف ہیں بلکہ مختلف دائروں سے مستخرج بھی ہیں۔بحرمنسرح دائرۂ متوافقہ سے ، بحررجز دائرۂ مجتلبہ سے، اور بحربسیط دائرۂ مختلفہ سے۔ اب اس پراہل فن فیصلہ کرسکتے ہیں ۔کیا ان
سب کااختلاط درست ہے یاکہ غلط؟
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments