شمس الرحمانی فاروقی صاحب" عروض ،آہنگ و بیان" کے صفحہ 196 پرحسرت موہانی کی سقوط حرف ک،کی ایک مثال پرمعترض ہیں۔
شعرحالی کاہے
بادصبا گئی پھونک کیاجانے کان میں کیا
پھولے نہیں سماتے غنچے جو پیرہن میں
شعر بحرمضارع کی مشہور شکل مثمن اخرب (مفعول،فاعِ لاتن،مفعول، فاعِ لاتن دوبار)وزن پر کہاگیاہے کہ مولاناکاخیال ہے کہ" بادصباپھونک گئی میں کاف ساقط الوزن ہے اس حیرت انگیز انکشاف کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالاجا سکتاہے کہ حسرت موہانی عروض سےنابلدتھے ورنہ وہ ایسےتصرف کوجوتمام شاعروں نے روا رکھاہے اورجسے عروضی اساتذہ بھی صحیح قراردیتے ہیں۔معرضِ اعتراض میں نہ لاتے"۔
حسرت موہانی کی عروض دانی پرسوال اٹھانا ایک الگ چیزہے کہ وہ اس فن میں کہاؐں تک دسترس رکھتے تھے لیکن خودمعترض فاروقیؔ صاحب یہاں یہ سمجھنے سے قاصررہے ہیں کہ حالی کا یہ شعرمختلف الوزن میں ہے۔صرف ایک حرف متحرک کے زائدسے وزن بدل گیاہے۔اوران کے دیئے گئے وزن کےنام میں بھی یہ اشارہ واضح طورپرملتاہے کہ وہ خود صحیح وزن کے تعین میں دھوکہ کھاگئے ہیں۔صرف" اخرب" کہنا درست نہیں۔مولانا حسرت نے جس نکتہ کوسامنے رکھ کر اعتراض کیاہے اس تک پہنچنے کے لئے وزن اوراس کاصحیح اصطلاحی نام دیکھناہوگا۔پھرفنی طورسے اس کاصحیح تجزیہ ہوجائے گا۔دراصل مصرعۂ اول کاوزن ہے۔
مفعول ،فاعِ لاتن، مفاعیل، فاعِ لاتن
اصطلاحی نام ہوتاہے۔ اخرب، سالم، مکفوف، سالم
معلوم ہوکہ رکن دوم فاعِ لاتن سالم ہے اوراس سالم پرتسبیغ جائزنہیں ۔کسی بھی سالم رکن میں تسبیغ یااذالہ کارِ شنیع سمجھاجائے گا۔اوراس وزن میں عمل تخنیق کی گنجائش نہیں البتہ عمل معاقبہ کے تحت مفاعیل کی جگہ فاعِلن لایاجاسکتاہے۔یہ واضح ہوکہ پوری کی پوری غزل بانظم کویاشعر کواسی ایک وزن میں باندھناہوگا۔
مصرعۂ ثانی کاوزن ہے۔مفعول فاعِ لات، مفاعیل، فاع لاتن
اصطلاحی نام ہوتاہے۔اخرب،مکفوف، مکفوف،سالم۔اس پرعمل تخنیق فرمایاجاتاہے۔مفعول، فاعِ لاتن، مفعول، فاعِ لاتن
حالی کے شعرکادوسراوزن حاصل ہوا۔اب یہاں درمیانی رکن"فاعِ لاتن" یعنی مابعدرکن سے مل کر یہ شکل اختیار کرلی ہے جوسالم کی طرح ہےلیکن سالم نہیں مکفوف ہی ہے اور اس پرتسبیغ کیاجاسکتاہے وہ بھی وزن کے دوٹکڑے بنائے جانے کے بعد۔غورکرنے کی بات یہ بھی ہے کہ آخری رکن اب بھی سالم ہی ہے اس پہ آخری رکن پر تسبیغ نہیں کرسکتے۔اس لیے ایسی جگہ شعرا محتاط ہی رہنااچھاہے۔
اسی موقعے پرایک وضاحت اورکردوں کہ یہ وزن دوحصوں میں منقسم ہوتا ہے توبحرمضارع مربع مضاعف کہلاتی ہے اوراس مربع مضاعف میں پہلارکن اخرب ہی ہے اوردوسرارکن یعنی آخری رکن ہواتو سالم ہی ہے۔اورسالم کومسبغ یامذال نہیں بنایاجاسکتا۔اس تفصیل کے بعد حالی کاشعر فنی اعتبارسے ناموزوں قراردیاجاتاہے یوں کہ یہاں پر تسبیغ کاموقع نہیں ہے۔کچھ ایساہی معاملہ کلام اقبال میں دیکھاجاسکتاہے جن پرازسرنو غورفرماکر صحیح استنباط کی ضرورت ہے۔
میں یہ پوچھنے پرحق بجانب ہوں کہ کوئی غیرمعروف شاعر ایساکرتاہے تو کیاوہ اسے جائزقراردیتے؟ نہیں۔وہ ایسانہیں کرتے فوراً اس پرکلام ناموزوں کافتویٰ صادرفرماتے اورفرمانابھی چاہئے۔
ایک جگہ عروض کی آڑلیں دوسری جگہ عروض کی دھجیاں اڑائی جائیں۔ ایساکرناقابلِ مذمت نہیں توکیاہے اقبال تو محض شاعری کی ہے عروضی یافنی شعبدہ بازیوں میں پڑھنے سے گریزکیاہے یہ توان کاکام تھاجونام نہادعروضی کہلاتے رہے کہ فن کی کسوٹی پراقبال کوپرکھ کر دیکھتے اورصحیح نتیجہ اخذکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
علامہ اقبالؔ اپنی بیشتر نظموں میں مختلف الاوزان کو اختلاط کرجاتے ہیں کبھی کبھی توایک شعرمیں دومصرعے الگ الگ بحروں کے مزاحف میں چلے جاتے ہیںاورایسے اشعار بکثرت پائے جاتے ہیں۔
اس بات پرغور کرنے کی ضرورت ہے کہ شاعراقبال اصل وزن کورعایتی اوزان میں کلام نہیں کہتے۔مختلف بحروں کے مختلف اوزان کےایک شعر میں خلط کرناکیسے پسندفرمائیں گے۔یہاں اقبال نے اہلِ فارسی کے اتباع کی ہے۔جواردوکے لئے غلط روش ہےاہل فارسی نے فن عروض میں جوتصرفات کیے ہیں وہ عروضِ خلیل کے منافی ہیں۔یہاں یہ سوال اٹھتاہے کہ کیاعلامہ اقبال کویہاں زبردست مغالطہ ہواہے یاکسی بات کے پیش نظر اقبال نے ایساکیا۔شاید کسی کی اب تک اس پر نظرنہیں گئی۔ اقبال کی یہ نظمیں صنعت مسمط میں بھی نہیں ہیں کہ جہاں ایسی صورت نکل آتی ہے کہ نظموں میں مصرعے وزن کے دوبرابرحصوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں اور اس کے حشواول عروض وضرب کی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں اوریہاں تسبیغ یااذالہ کی گنجائش نکل آتی ہے۔
البتہ اقبال کو اس بات پر ملکہ حاصل ہے کہ وہ غیرمسمط نظموں کوبھی دوبرابر حصوں میں منقسم کرتے ہیںاورآخرتک اس کاالتزام بھی رکھتے ہیں یہی جگہ ہے جہاں وہ وقفہ کا بہترین استعمال کرتے ہیں اوراسے فن کے درجہ تک پہنچادیتے ہیں۔
اقبال نے وقفے کےفن کوبے مثال خوبی سے استعمال کیاہے ہماری جن بحروں میں وقفہ لازمی ہوتاہے (اگرچہ عروضی اعتبارسے اس کاکوئی مقام نہیں) انہیں شکستہ بحر یابحرمکررکہتے ہیں۔(عروض،آہنگ وبیان ص297)
شکستہ بحر یابحرمکررمیں وقفہ لایاجاسکتاہے علاوہ اس کے ایسی بحریں یااوزان ہیں جن میں وقفہ لاناشاعرکواختیا رہوتاہے اوروقفہ گوکہ لازمی چیزنہیں بھی ہے لیکن اس کے استعمال سے جوحسن پیداہوتاہے اس سے انکاربھی نہیں کیاجاسکتا۔
اقبالؔ کی اس خوبی کو شمس الرحمان فاروقی نے نظم شکوہ کے اس بند سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ نظم بحررمل سالم، مخبون مخبون،مخبون محذوف، فاعِلاتن، فعِلاتن۔فعِلاتن۔ فعِلن۔ کے وزن پرتقطیع ہوتی ہے۔
، فاعِلاتن، فعِلا/تن۔فعِلاتن۔ فعِلن۔(فع، فعولن،فعِلن/فعلُ،فعولن، فعِلن)
کِوں زیاں کاربنوں/سودفراموش رہوں
فکرِ فردانہ کروں/محو غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں/اورہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی /گل ہوں کہ خاموش رہوں
جرات آموزمری/تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خا/کم بدہن ہے مجھ کو
،،"فاعِلاتن فعلن اس کوایک اورطرح سے پڑھیں تو فع فعولن فعِلن (یعنی جب دوسرے رکن کافِعلاتن دوحصوں میں تقسیم ہوگیاتوپہلاحصہ فعلن
پرختم ہوا اوردوسرا حصہ اگلے رکن سے مل کرفعلُ فعولن کی شکل اختیارکرگیا)لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی بحرکوجودراصل ، فاعِلاتن، فعِلاتن۔فعِلاتن۔ فعِلن۔کاوزن رکھتی ہے۔اقبال نے دوحصوں میں اس طرح منقسم کیاکہ تقریباً برابروزن کے دومصرعے حاصل ہوگئے۔ فع فعولن اورفعل فعولن فعلن۔"
اگراقبال کے اس بندکوبحررجزمثمن کے مزاحف وزن فاعلن مفتعلن مفتعلن مفتعلن(مرفوع مطوی مطوی مطوی) میںتقطیع فرمائیں گے توہرمصرعہ دوٹکڑوں میں برابرکاتقسیم ہوتاہے میری ناقص رائے میں اس نظم کے چند مصرعے بحررمل میں تقطیع نہیں ہوتے تویہ نظم ضرور بحررجزمیں ہوتے ہیں۔
فاعِلن مفتعلن/ مفتعلن مفتعلن
کیوں زیاں کار بنوں/سود فراموش رہوں
فکرِ فردا نہ کروں/محوغم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں/اورہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی/گل ہوں کہ خاموش رہوں
جرات آموز مری/تابِ سخں ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خا/کم بدہن ہے مجھ کو
شمس الرحمان فاروقی کی عروض وآہنگ وبیان کے اپنے ایک مضمون اقبال کاعروضی نظام 295ص میں بڑی پتے کی بات لکھی ہے۔
،"دنیا کےا کثرعروضی اس بات پر متفق ہیں کہ بحرکااستعمال ایساہوناچاہئے کہ بحرنہ بدلے لیکن اس میں یکسانیت بھی نہ ہو"۔
اردوکاایک ایساواحدعروض ہے جسے دوسری زبان کے عروض پرفوقیت حاصل ہے جوایک نظم یاغزل میں ایک بحرسے حاصل کئی مزاحف کااختلاط جائزقرار دیتاہےبشرطیکہ وہ مسلمہ قواعد سے حاصل ہوئے ہوں اسی لیے توعمل تسکین اوسط ،عمل تخنیق، عمل معاقبہ سے اصول مرتب کیے گئے ہیں۔عروض میں ایسے ایسے اصول ہیں جوہمیں آسانیاں فراہم کرتے ہیں افسوس کہ ہماری کوتاہ ذہنی ہے کہ سمجھ نہیں پاتے۔بزعم خویش عروضی اردوعروض کی مزید تسہیل کاری کے نام پرنئے نئے ارشادات واجتہادات، ایجادات واختراعات جیسی چیزیں فیشن کی طرح عام کرگئیں اور اس بنے بنائے فن کو اوربھی گنجلک وثقیل بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔بلاشبہ تسہیل فن عروض ایک بہترین کاوش سمجھی جاسکتی ہے لیکن اس سے زیادہ اچھا ہے کہ عروض کی صحیح نہج تک پہنچ کرسمجھنے کی کوشش کی جائے۔
بحررجز مثمن کاایک مزاحف وزن مفتعلن، مفتعلن،مفتعلن مفتعلن جس کا اصطلاحی نام بحررجز مثمن مطوی جمیع الاجزا ہوتاہے جس پرعمل تسکین اوسط اوراصول معاقبہ کے اطلاق سے کل 81رعایتی اوزان حاصل ہوتے ہیں اور ان کا ایک جگہ خلط جائز ہے جس سے نہ صرف کلام میں تنوع پیداہوتا ہے بلکہ بحربھی نہیں بدلتی۔
دیکھئے مکمل خاکہ۔۔۔۔۔
بحررجزمثمن مطوی مطوی مطوی /مطوی مسکن
مخبون مخبون مخبون مخبون
1)
مفتعِلن مفتعِلن مفتعِلن مفتعِلن
مفتعِلن مفتعِلن مفتعِلن مفاعِلن
مفتعِلن مفتعِلن مفاعِلن مفتعِلن
مفتعِلن مفتعِلن مفاعِلن مفاعلن
مفتعِلن مفتعِلن مفعولن مفتعِلن
مفتعِلن مفتعِلن مفتعِلن مفعولن
مفتعِلن مفتعِلن مفعولن مفاعِلن
مفتعِلن مفتعِلن مفاعِلن مفعولن
مفتعِلن مفتعِلن مفعولن مفعولن
2)
مفتعِلن مفاعِلن مفتعِلن مفتعِلن
مفتعِلن مفاعِلن مفتعِلن مفاعلن
مفتعِلن مفاعِلن مفاعِلن مفتعِلن
مفتعِلن مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن
مفتعِلن مفاعِلن مفعولن مفتعِلن
مفتعِلن مفاعِلن مفتعِلن مفعولن
مفتعِلن مفاعِلن مفعولن،مفاعلن
مفتعِلن مفاعِلن مفاعِلن مفعولن
مفتعِلن مفاعِلن مفعولن مفعولن
3
مفاعِلن مفتعِلن مفتعِلن مفتعِلن
مفاعِلن مفتعِلن مفتعِلن مفاعِلن
مفاعِلن مفتعِلن مفاعِلن مفتعِلن
مفاعِلن مفتعِلن مفاعِلن مفاعِلن
مفاعِلن مفتعِلن مفعولن مفتعِلن
مفاعِلن مفتعِلن مفتعِلن مفعولن
مفاعِلن مفتعِلن مفعولن مفاعِلن
مفاعِلن مفتعِلن مفاعِلن مفعولن
مفاعِلن مفتعِلن مفعولن مفعولن
4)
مفاعِلن مفاعِلن مفتعِلن مفتعِلن
مفاعِلن مفاعِلن مفتعِلن مفاعِلن
مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن،مفتعلن
مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن
مفاعِلن مفاعِلن مفعولن مفتعِلن
مفاعِلن مفاعِلن مفتعِلن مفعولن
مفاعِلن مفاعِلن مفعولن مفاعِلن
مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن مفعولن
مفاعِلن مفاعِلن مفعولن مفعولن
5)
مفعولن مفتعِلن مفتعِلن مفتعِلن
مفعولن مفتعِلن مفتعِلن مفاعِلن
مفعولن مفتعِلن مفاعِلن مفتعِلن
مفعولن مفتعِلن مفاعِلن مفاعِلن
مفعولن مفتعِلن مفعولن مفتعِلن
مفعولن مفتعِلن مفتعِلن مفعولن
مفعولن مفتعِلن مفعولن مفاعِلن
مفعولن مفتعِلن مفاعِلن مفعولن
مفعولن مفتعِلن مفعولن مفعولن
6)
مفتعِلن مفعولن مفتعِلن مفتعِلن
مفتعِلن مفعولن مفتعِلن مفاعِلن
مفتعِلن مفعولن مفاعلن،مفتعلن
مفتعِلن مفعولن مفاعِلن مفاعِلن
مفتعِلن مفعولن مفعولن مفتعِلن
مفتعِلن مفعولن مفتعِلن مفعولن
مفتعِلن مفعولن مفعولن مفاعِلن
مفتعِلن مفعولن مفاعِلن مفعولن
مفتعِلن مفعولن مفعولن مفعولن
7)
مفاعِلن مفعولن مفتعِلن مفتعلن
مفاعِلن مفعولن مفتعِلن مفاعلن
مفاعِلن مفعولن مفاعِلن مفتعلن
مفاعِلن مفعولن مفاعِلن مفاعلن
مفاعِلن مفعولن مفعولن مفتعلن
مفاعِلن مفعولن مفتعِلن مفعولن
مفاعِلن مفعولن مفعولن مفاعلن
مفاعِلن مفعولن مفاعلن مفعولن
8)
مفاعِلن مفعولن مفعولن مفعولن
مفعولن مفاعلن مفتعِلن مفتعلن
مفعولن مفاعلن مفتعِلن مفاعلن
مفعولن مفاعلن مفاعِلن مفتعلن
مفعولن مفاعلن مفاعِلن مفاعلن
مفعولن مفاعلن مفعولن مفتعلن
مفعولن مفاعلن مفتعِلن مفعولن
مفعولن مفاعلن مفعولن مفاعلن
مفعولن مفاعلن مفعولن مفعولن
9)
مفعولن مفعولن مفتعِلن مفتعلن
مفعولن مفعولن مفتعِلن مفاعلن
مفعولن مفعولن مفاعِلن مفتعلن
مفعولن مفعولن مفاعِلن مفاعلن
مفعولن مفعولن مفعولن مفتعلن
مفعولن مفعولن مفتعِلن مفعولن
مفعولن مفعولن مفعولن مفاعلن
مفعولن مفعولن مفاعِلن مفعولن
مفعولن مفعولن مفعولن مفعولن
٭
یہ کرشمہ عمل معاقبہ اور تسکین اوسط کاہے اوران سب 81 اوزان کا اجتماع کسی شعر نظم یاغزل میں جائز ودرست ہے یہ اصول ہے کہ کسی سالم رکن سے حاصل ہونے والے دوایسے فروع جوایک رکن سے مشتق ہوں توایک دوسرے کی جگہ بلاکراہت لائے جاسکتے ہیں ۔مثلاً یہاں سالم رکن مس تف علن کے دوفروع۔مفتعلن (مطوی) مفاعِلن (مخبون) کوایک دوسرے کی جگہ لایاجاسکتاہے اور اس میں مزید مفتعلن (مطوی) کومفعولن (مطوی مسکن) بناکر ان دونوں کی جگہ لاسکتے ہیں اس سے کلام ناموزوں نہیں ہوتا بلکہ کلام میں تنوع پیداہوتاہے۔
پیش کردہ اس خاکہ میں اصطلاحی نا م درج نہیں ہیں بس یوں سمجھئے کہ جہاں مفتعلن آتاہے "مطوی" جہاں مفاعِلن آتاہے مخبون اورجہاں مفعولن آتاہے وہ مطوی مسکن ۔۔مثلاً یہ وزن دیکھئے ۔
مفتعلن مفاعِلن مفعولن مفتعِلن
بحررجزمثمن مطوی مخبون مطوی مسکن مطوی
اب تک عملِ معاقبہ کوصرف رباعی کے اوزان کی حدتک ہی رکھاگیاہے دوسری بحروں میں اس کااطلاق نہیں کیاگیا اورکوئی وجہ بھی نہیں ۔یہ عمل صرف رباعی کے اوزان ہی کے لئے مختص تونہیں ہے بلکہ دوسری بحروں کے اوزان میں بھی اس کااطلاق فرماکر مزیداوزان حاصل کر لئے جاسکتے ہیں۔
کچھ اوروضاحت کے ساتھ۔ ابھی میں اس مفروضہ کوپیش کرناچاہتاتھا لیکن نفسِ مضمون کاتقاضہ کچھ اورہے اس لیے اس بات پرآتاہوں جومجھے دراصل کہناہے۔کلام اقبال پرلکھے گئے دونوں مضامین میں کچھ مفروضات ایسے ہیں جن سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔
دونوں فاضل مصنفین نے علامہ اقبال کے مجموعہائے کلام اردو(بانگِ درا ،بالِ جبرئیل ، ضرب کلیم اور ارمغانِ حجاز)میں کتنی بحریں مستعمل رہی ہیں کتنے اوزان کوبرتاگیاہے ان کی گنتی کی گئی ہے تعداد تلاش کرنے کی یہ کوشش خوب کہی جاسکتی ہے۔ان ہی نکات پرمحیط ڈاکٹر گیان چندجین کامضمون ہے پھرفاروقی صاحب اس سے آگے بڑھ کر یہ کام کیے ہیں کہ کلام اقبال میں مستعمل اوزان وبحور کاتناسب نکالاہے۔قابل ستائش بھی ہے۔
گیان چندجین نےاقبال کی بحروں کی جدول مرتب کی ہے اوراس میں بحروں کے نام اورہربحرمیں اشعارکی تعداد بھی لکھی ہے لیکن انہوں نے اشعار کی فی صد تعداد نہیں بتائی میں نے ہر بحر کے اشعار کا فیصد تناسب نکالا ہے (اقبال کاعروضی نظا، 288ص عروض وآہنگ)
میرے خیال میں اسے یوں کہاجائے توبھی درست ہوگا کہ ایک
صاحب(گیان چندجین) نے بحریں اوراوزان کی گنتی کی ہے اوردوسرے صاحب (فاروقیؔ) نے اس کاتناسب نکالاہے،اقبا ل سناشی میں یہ کام اپنی جگہ اہمیت ضروررکھتے ہیں ۔کلام اقبال کافنی وعروضی نقطۂ نظرسےمطالعہ ضروری ہے اگرچہ کہ کلام اقبال میں فنی خامیاں زیادہ نہیں ہیں بہت کم ہیں یا نہ کے برابرہیں۔
لیکن ان دونوں مضامین میں عروضی وفنی تسامحات ضرورراہ پاتی ہیں کچھ اوزان کے اصطلاحی نام صحیح نہیں لکھے گئے ہیں کچھ کے ارکان بھی غلط تحریرکردیئے گئے ہیں اورایک دوغیرحقیقی اوزان میں بھی کلام اقبال کوتقطیع کیے ہیں۔
اقبال کافن ۔گیان چندجین کے مضمون اقبال کے اردوکلام کاعروضی مطالعہ صفحہ نمبر 94 میں دیئے گئے جدول نمبر1اشعار کے اوزان میں نمبر شمار 2 پرمجتث مثمن محذوف ابتروغیرہ مفاعِلن فعِلاتن مفاعِلن فَعلُن /فَعلان
مندرجہ بالا وزن کے اصطلاحی نام میں وغیرہ لکھنا موصوف کااشارہ غالباً فَعلان کی طرف ہے۔صحیح اصطلاحی نام مع املائے ارزکان۔
مفاعِ لن فعِلاتن مفاعِ لن فعلن /فَعلان
مخبون۔مخبون ۔مخبون۔مخبون محذوف مسکن/مخبون مقصورمسکن
فَعلن ابتر بھی درست ہے جبکہ وزن شعرکی آخرمیں یوں ہی آتا جائے۔ اگرایک جگہ فَعلن اورایک جگہ فَعلُن توایسی جگہ یہ مخبون محذوف مسکن ہی بہت صحیح ہے۔
اگراقبال کے ذہن میں یہی وزن ہے تو اس میں اقبال نے بانگ درا میں 22نظمیں ،بال جبرئیل میں 33، ضربِ کلیم میں 66 اور ارمغان حجازمیں 6لکھی ہیں ایسانہ ہوکر یہ وزن یہ بحرمقتضب سے ماحصل ہوا ۔وزن اوراصطلاحی نام الگ ہوگا۔وزن مع اصطلاحی نام ملاحظہ ہو ۔
فعول،مفتعلن ،فاعِ لات،مفتعلن
بحرمقتضب مثمن
مرفوع مخبون ۔مطوی۔مطوی ۔مطوی
اس کے آخر میں مفتعلن مطوی کی جگہ مفعولن مطوی مسکن یامفتعلان مطوی مذال کی جگہ مفعولان اعرج(مطوی مسکن مذال) لانے میں کوئی حرج نہیں ۔کلام اقبال کے فنی مطالعہ میں وقفہ ایک اہم ترین پہلوہے ۔جس کے پیش نظریہ انکشاف ہوجاتاہے کہ اقبال وزن کے ٹھیک دوحصہ بناتے ہیں جہاں وہ وقفہ کی جگہ پیداکرتے ہیں۔اس کی مثال میں اقبال کی چھوٹی دلکش اور شہ کارنظم "لاالہ الااللہ "کے ہرمصرع ثانی کوسامنے رکھاجاسکتاہے۔
خودی کاسرِ نہاں "لاالہ الااللہ
خودی ہے تیغ فساں"لاالہ الااللہ
فعول ۔مفتعلن/فاعِ لات۔مفعولان
خودی کا سرِ نہاں/لاالہ الااللہ
غورطلب بات ایک یہ ہے کہ اقبال اپنے اس کلام کوکس بحر کے مزاحف آہنگ میں قطع فرماتے ہیں ان دونوں آہنگوں کاموازنہ ہوناچاہئے۔
بحرمقتضب سالم ارکان: مفعولات، مس تف علن،مفعولات، مس تف علن
زحافات : رفع،خبن،طے،تسکین،اذالہ(کل پانچ زحافات ہیں اورہررکن زحاف سے متاثرہے) ۔
مزاحف وزن:فعول، مفتعلن، فاعِ لات، مفتعِلن/مفعولن
اصطلاحی نام:مقتضب مثمن مرفوع مخبون، مطوی،مطوی مطوی /مطوی مسکن
بحرمجتث:مس تفع لن،فاعِلاتن،مس تفع لن، فاعلاتن
اس پر بہ عمل زحاف جووزن حاصل ہوتاہے وہ یہ ہے۔
وزن:مفاعِ لن، فعِلاتن،مفاع لن فَعلُن/فعلان
اصطلاحی نام : بحرمجتث مثمن مخبون مخبون مخبون مخبون محذوف/مخبون محذوف مسکن
محولہ وزن میں جن زحافات کاعمل ہواہے وہ یہ ہیں۔
زحافات: خبن،حذف، قطع،قصر، تسکین(کل پانچ زحافات ہیں اورہررکن زحاف سے متاثرہے)
دونوں ہی مرکب بحور سے محصول ہیں۔اقبال کس وزن کوپیش نظڑ رکھ کراپناکلام کہاہے ۔مطالعۂ کلامِ اقبال سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ اپنے کلام میں ایک سکتہ لاتے ہیں جہاں ایک وقفہ کی شکل پیداہوتی ہے۔
اس ضمن میں یہ چندمثالیں درجِ ذیل ہیں
وزن بحرمقتضب:
اثر کرے نہ کرے/سن تو لے میری فریاد
فعول مفتعلن/فاعِ لات مفعولن(مفتعلان ساکن ہوکر مفعولان لایاگیاہے)
یہی مصرع بحرمجتث کے وزن میں یوں قطع ہوتاہے
وزن:
اثر کرے نہ کرے
سن تو لے مری فریاد
وزن بحر مجتث؛مفاعِ لن فعِلا/تن مفاعِ لن/فعلن یافعلان
وزن بحرمجتث:
نہیں ہے داد کاطالب یہ بندۂ آزاد !
مفاعِ لن فعِلاتن/مفاعِ لن فعلن یافعلان
وزن بحرمقتضب:
نہیں ہے دادکا/طالب بندۂ آزاد
فعول، مفتعِ /لن فاعِ لات مفتعِلان(مفعولان)
عروضیوں کے نزدیک ایک بات ہوتی ہے جب کسی کے کلام کوایک سے زائد بحروں کی مزاحف اوزان میں پاتے ہیں تواس کے متعین کرنے میں چندباتیں پیش رکھتے ہیں ۔پہلی بات یہ ہے کہ وزن ایساہوجس میں زحافات کم ہوئے ہوں دوسری بات یہ کہ اگروزن بحرمفردیابحرمرکب سے حاصل ہوتاہے تو بحرمفرد والے وزن کوترجیح دیتے ہیں۔
کوئی شاعرفن میں بھی دسترس رکھتا ہے تووہ اپنے کلام میں تنوع پیداکرنے کے لئے کچھ ایسی اوزان بحورکوتعین کرسکتاہے جس میں رعایتی اوزان زیادہ سے زیادہ محصول ہوں۔اوریہ بہت اہم بھی ہے جسے ہم خاطرمیں نہیں لاتے۔یہی وہ جگہ ہے جہاں ہم عمل تخنیق ، عملِ تسکین، اورعملِ معاقبہ کوبروئے کار لاکر فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ پچھلے صفحات میں اس کی ایک مثال دی گئی ہے انہیں اصولوں کی صحیح انطباق سے اردوعروض میں جولچک پیداہوتی ہے وہ کسی اورعروض میں دیکھی نہیں جاسکتی۔
بعض بحریں ایسی ہیں جس میں بہ یک وقت عملِ تخنیق ،عمل تسکین اورعملِ معاقبہ فرماکر سینکڑوں رعایتی اوزان حاصل کرسکتے ہیں اوران سب کاایک جگہ اختلاط ازروے عروض جائزودرست ہوتاہے۔
اس تجزیہ سے یہ نکتہ سامنے آیاہوگا۔
1)مخلوط آہنگوں میں کلام تقطیع ہوتاہے تووہاں یہ ضروری ہے کہ اس بحر کی مزاحف وزن کوسمجھاجائے۔جس میں زحاف کم لائے گئے ہوں۔
کوئی کلام ہم وز ن والے آہنگ میں تقطیع ہوتاہے تواس میں ایک وزن بحر بحرمفردمیں اورایک وزن بحر مرکب میں ہے توایسی صورت میں بحرمفرد والاوزن مرجح ہے۔
آخرمیں جوبات بتادی گئی وہ یہ تھی کہ شاعر کویہ آزادی ہے وہ مفرد یامرکب بحرکے اس وزن کو بھی تعین کرسکتاہے جس میں اصل وزن ورعایتی اوزان زیادہ سے زیادہ حاصل ہوتے ہوں تاکہ وہ اپنے کلام میں تنوع پیداکرے۔
معلوم ہوکہ اقبال شاعری کے ذریعہ پیغامبری کاکام کیاہے اس کے لئے وہ فنی یاعروضی تجربہ نہیں کیے البتہ جمالیاتی تقاضوں کوپیش رکھاہے اوروقفہ کوتجربے کی بنیاد بناکر شعری ہئیتوں میں تنوع پیداکرنے کی بھرپور کوشش کی ہے یہ خصوصیت صرف اقبال کی شاعری میں نظرآتی ہے۔
اس تفصیل کے بعد میں اپنے مفروضہ کورکھناچاہتاہوں کہ اقبال کی شاعری کوبحرمقتضب مثمن مرفوع مخبون ،مطوی ،مطوی،مطوی میں تقطیع کیوں نہ کیاجائے جبکہ اس وزن میں عروض کے مسلمہ اصول عمل تخنیق ،عمل تسکین اورعمل معاقبہ سے بحرمجتث کے وزن سے بھی زیادہ رعایتی اوزان حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
جدول نمبر ا1، شمارنمبرا3 پر ہزج مثمن اخرب مقصور/محذوف کے تحت مفعول،مفاعیل، مفاعیل،فعولن/مفاعیل لکھاہے۔
صحیح اصطلاحی نام: ہزج مثمن اخرب مکفوف مکفوف محذوف/مقصور
مفعول، مفاعیل، مفاعیل،فعولن/مفاعیل (فعولان)
آخری رکن مفاعیل لکھیں یا فعولان بہ اعتبار تقطیع کچھ فرق نہیں۔
اس وزن پرعمل تخنیق فرمانے سے جواوزان سامنے آتے ہیں۔وہ مندرجہ ذیل ہیں اور ان سب کا اجتماع ایک جگہ درست ہے۔
1)مفعول، مفاعیل، مفاعیلن، فَعلُن/فعلان
2)مفعول، مفاعیلن، مفعول، فَعولُن/فعولان
3)مفعول، مفاعیلن، مفعولن، فَعلُن/فعلان
4)مفعولن، مفعول، مفاعیل، فَعولُن/فعولان
5)مفعولن، مفعول، مفاعیلن، فَعلُن/فعلان
6)مفعولن، مفعولن، مفعول، فَعولُن/فعولان
7)مفعولن، مفعولن، مفعولن، فَعلُن/فعلان
متذکرہ وزن کی وضاحت میں صفحہ نمبر99پرموصوف نے لکھاہے کہ ارمغان حجاز میں ملازادہ ضیغم لولابی کشمیری کا(کذا)بیاض۔
ع۔پانی ترے چشموں کاتڑپتاہواسیماب
مرغانِ سحرتیری فضاؤں میں ہیں بے تاب
پوری نظم ایک ہی اصل وزن میں کہی گئی ہے صرف ایک مصرع رعایتی وزن میں ہواہے۔
مفعول، مفاعیل،مفاعَیلن۔فَعلُن(بحرہزج اخرب مکفوف ،مکفوف،محذوف مخنق)
ع؛۔بیدارہوں دل جس کی فغانِ سحری سے
اقبال رعایتی اوزان میں بہت کم اشعارکہے ہیں۔ایک مکڑااورمکھی جیسی کئی اورنظمیں ایک ہی اصل وزن میں پورے اہتمام سے کہی گئی۔جوشاعر اتنے احتیاط اوراہتمام کے ساتھ شعرگوئی کرتاہوجب پوری کی پوری نظم اقبال ایک ہی وزن میں کہناپسندکرتے ہیں تودومختلف بحروں کے مختلف اوزان کووہ ایک نظم میں کیسے مخلوط کرجاتے ہیں۔سوال کیوں نہ پیداہو؟؟؟ کیااقبالؔ اس بات سے آگاہ نہیں تھے کہ ایساکرنا فن شعرگوئی میں نہ صرف نقص پیداکرتاہے بلکہ کلام کوناموزوں کے زمرے میں بھی رکھ دیتاہے۔
جدول نمبر1 شمارنمبر6
مضارع اخرب مکفوف محذوف/مقصور
مفعول، فاعلات، مفاعیل، فاعلن/فاعلات
گیان چندجین صاحب سے املائے ارکان غلط لکھے گئے ہیں
مفعول، فاع لات، مفاعیل، فاع لن/فاع لان
بحورواوزان کی وضاحت میں ان کی ایک بات( جومیں نے محسوس کی ہے )غیرعروضی معلوم ہوتی ہے۔وہ لکھتے ہیںکہ یہ بھی اردوکا مشہوروزن ہے یااردو میں دواوزان سب سے زیادہ مقبول ہیں۔اس طرح کے جملے وفقرے عروضی تجزیہ نگارکی شایان شان نہیں ہوسکتے۔
کوئی وزن غیرمستعمل ہے یاکوئی وزن بہت معروف ومشہور ہے رواں ہے۔اس کایہ ہرگز مطلب نہیں کہ باقی ماندہ جوبھی اوزان ہیںان کی روانی یاترنم میں کمی ہے یہ ساری باتیں ایسی ہیں جومترنم اورغیرمترنم اوزان کی بحث کو جگہ دیتی ہیں یاایسی باتیںوہی لوگ کرتے ہیں دراصل جن کو عروضی سدھ بدھ نہیں ہوتی۔معدودے چندکہ اکثرشعراحضرات کوفن عروض کاعلم کچھ کم ہی ہوتاہے اس لیے انہیں اوزان میں طبع آزمائی فرماتے ہیں جوپیشروؤں کے کلام میں مستعمل یارائج نظرآتے ہیں۔اسی طرح دوسرے تیسرے کی بات ہے اوریہی سلسلہ آگے بھی بڑھتے چلاجاتاہے ۔اب بزعم خویش عروض داں حضرات اس بات کوپیش نظرکچھ ان اوزان کو جو اس طرح زیادہ مستعمل ہوجاتے ہیں توان کومشہورومعروف کہنے لگتے ہیں۔
اس کاکیامطلب نکالا جائے کہ اقبال جیسا بڑاشاعرایک بہت ہی عام اورزیادہ مستعمل بحرمتدارک سالم ،فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن کوہاتھ بھی نہیں لگایااور یہ مربع مسدس، مثمن، اورشائزدہ رکنی بھی مستعمل رہی ہے شایدہی اردوکاکوئی ایسا چھوٹاشاعرہو جواس بحرکواستعمال نہ کیاہو اس معنی میں یہ بالکل درست نہیں کہ اس میں ترنم یاروانی کی کمی کی وجہ سے اقبال نے اسے ترک کیاہو۔
سچ تویہ ہے کہ اردوکاعروض وسیع ہے اور بہت وسیع ۔ایک ایک بحرکے سیکڑوں کی تعدادمیں اوزان برآمدہوتے ہیں پھران کے کئی کئی رعایتی اوزان حاصل ہوتے ہیں ان سب کا احاطہ نہ صرف مشکل ہے بلکہ نہ ممکن بھی نہیں۔
جدول نمبر1 وزن نمبر شمار10
مضارع مثمن اخرب: مفعول، فاعلاتن،مفعول، فاعِلاتن
صحیح اصطلاحی نام مع صحیح املاے ارکان وزن ملاحظہ ہو۔
وزن:مفعول، فاع لاتن،مفعول، فاعِ لاتن
نام: بحرمضارع مثمن ،اخرب،مکفوف ،مکفوف مخنق،سالم
دراصل یہ رعایتی وزن ہے اس کااصل وزن ہے۔
مفعول، فاع لات،مفاعیل، فاعِ لاتن
اس وزن پرعمل تخنیق لاگوکرنے سے اقبال کا رعایتی وزن محصول ہوتاہے جن میں ایک شعریانظم یا غزل میں خلط درست ہے ۔اقبال کی مشہورنظمیں ،ترانۂ ہندی، ہندوستانی بچوں کاگیت، جگنو، نیاشوالہ وغیرہ اسی میں ہیں ان نظموں میں ایک آدھ ایسامصرعہ نہیں ہے کہ اس کے اصل وزن میں چلاجائے۔
جب اقبال نے رعایتی وزن سے فائدہ نہیں اٹھایاہے تواس وزن کوبحرمضارع مثمن سے کیوں تعین کیاجائے بحررمل مثمن سے کیوں نہیں؟۔جبکہ ایک ہم مشابہ وہم آہنگ والا وزن بحررمل سے حاصل ہوتاہے۔
بحررمل مثمن، مشکول مسکن، سالم،مشکول مسکن،سالم
وزن:فعلات، فاعلاتن،فعلات، فاعِلاتُن
اوراس وزن میں فاعلاتن متصل صحیح ہے ۔مفعول یافعلات بہ اعتبار تقطیع کچھ فرق نہیں ۔دونوں ہی مانوس رکن ہیں۔بحرمضارع کے وزن میں مفعول اوربحررمل کے وزن مین فَعلات صرف اس لیے لکھناچاہئے تاکہ التباس پیدانہ ہو۔
قیاس غالب ہے کہ اقبال نے اپناکلام بحررمل کے مزاحف میں
کہاہواوراس وزن میں صرف دوارکان زحاف سے متاثرہیں اوربحرمضارع کے وزن میں تین ارکان متاثرہیں۔گیان چندجین صاحب کے بتائے ہوئے اصطلاحی نام میں اخرب(مفعول) حشودوم میں ہے۔جوکہ غلط ہے خرب صرف صدروابتداکازحاف ہے۔حشوین میں وارد نہیں ہوتا۔ دراصل یہ حشواول فاعِ لات ،مفاعیل مکفوف مکفوف پرعمل تخنیق کی وجہ سے فاعِ لاتن مفعول(مکفوف مکفوف مخنق) کی صورت اختیارکیے ہوئے ہیں۔
اس طرح بانگ دراکے 121 اوربال جبرئیل کے17اشعار بحررمل کے جدول میں شمار کیے جائیں توبحرمضارع والے اشعارکی تعدادگھٹ سکتی ہے اورپھرتعداداورتناسب میں فرق نمایاں ہوجاتاہے۔
جدول نمبر1 وزن شمار نمبر14
مفعول، مفاعیلن،مفعول،مفاعِیلن
گیان چندجین صفحہ نمبر 108پراس کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ اس میں بھی عربی روایات عروض کے مطابق درمیانی مفاعیلن میں تسبیغ کازحاف لگاکرمفاعلان کرناجائز نہیں لیکن ایران اورہندوستان میں یہ عام رہاہے ۔اقبال نے بھی ایساکیاہے۔ع
یااپناگریباں چاک یادامن یزداں چاک
ایران اورہندوستان سے حوالے کچھ عرض کرنے سے پیشتر یہ دیکھناہوگاکہ گیان چندجین کہاں تک اس وزن کواخذکرپائے ہیں ۔یہ پہلے بھی عرض کیاجاچکاہے کہ کسی بھی سالم رکن پرعمل تسبیغ ہوکہ اذالہ امرممتنع ہے۔اس طرح ایک سالم رکن کی ہیئت بدل جاتی ہے ۔وہ خماسی سے شش حرفی اورسباعی سے ہفت حرفی رکن بن جاتاہے جوکہ صحیح نہیں ہے دائرے سے بحر جس طرح اخراج پاتی ہے اس کے سالم ارکان میں اضافہ نہیں کیاجاسکتا۔اوراسی طرح بے اصولی پرچلناہے تو عروض کی ضرورت واہمیت ہی کیاہے؟؟؟ ایک حرف کوساکن یاساقط ہی کیاکرنا؟ عرب وایران والوں کی طرح زحاف خرم کی طرح دوتین لفظ بھی زائدکریں تو کون محاسبہ کرے گا؟،ترنم اورموسیقیت ہی تومفقود ہوجائے گی اور اس سے سوا کیاہوگا؟؟؟؟؟
گیان چندجین صاحب کو یہاں یہ سخت مغالطہ ہواہے کہ اس وزن کےدرمیان ورود مفاعَیلن کوسالم اور مفعول کواخرب سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ ایسانہیں اوربالکل نہیں۔البتہ وزن کے پہلے رکن میں مفعول(اخرب) اوردوسرے رکن میں مفاعَیلن سالم آسکتے ہیں لیکن اس کے بعد تیسرے رکن میں مفعول نہیں آسکتا۔مفاعیل ہوسکتاہے۔وہ جومصرعہ درج کرتے ہیں اس کاوزن یہ ہوگا۔
مفعول، مفاعیلن،مفاعیل،مفاعَیلن
یااپناگریباں چا/ک یادامنِ یزداں چاک
وزن کے صحیح ہونے کے باوجود پھربھی مصرعہ ناموزونیت کے زمرے آئے گا اس لیے کہ آخری سالم پرتسبیغ کاعمل ہواہے۔
جدول میں دیاہوا وزن بحر ہزج کے اس مندرجہ ذیل اصل وزن سے محصول کرلیاجاتاہے۔
مفعول، مفاعیل،مفاعیل،مفاعَیلن (بحرہزج مثمن اخرب،مکفوف،مکفوف،سالم)
اس پرعمل تخنیق فرمانے سے رعایتی اوزان حاصل ہوتے ہیں۔
1)مفعول، مفاعیل،مفاعیلن،مفعولن
2)مفعول، مفاعیلن،مفعول،مفاعَیلن
3)مفعول، مفاعیلن،مفعولن،مفعولن
4)مفعولن، مفعول،مفاعیل،مفاعیلن
5)مفعولن، مفعول،مفاعیلن،مفعولن
6)مفعولن، مفعولن،مفعول،مفاعَیلن
7)مفعولن، مفعولن،مفعولن،مفعولن
گیان چندجین صاحب کادیاگیاوزن ۔مندرجہ بالا اوزان میں دوسرے نمبرپرواردوزن ہےاصطلاحی نام بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف مکفوف مخنق سالم ان سب کا ایک جگہ اختلاط جائز ودرست ہے،۔
ایک اورضروری بات ۔ایک مصرعہ
مفعول، مفاعیلن،مفاعیل،مفاعَیلن
اورایک مصرعہ مفعولن، مفاعیلن،مفعول،مفاعَیلن میںگردانا جائے توشعر ،نظم یاغزل دومختللف الوزن میں چلے جائیں گے اس طرح کااختلاط درست نہیں۔اوراقبال کے یہاںاس طرح کی مثالیں ملتی ہیں۔
یہ دیرکہن کیا ہے؟ انبار خس وخاشاک ۔
بالِ جبرئیل333
اس غزل کے ہرثانی مصرعہ کے آخر میں ایک حرف زائد ہے اورایک دومصرعہ ایسے بھی ہیں جن کے حشوین میں ایک ساکن حرف زائد آیاہے۔
ہرشوق نہیں گستاخ ، جذب نہیں بیباک
(بال جبرئیل صفحہ 333)
ع۔یہ کون غزل خواں ہے پرسوز ونشاط انگیز
(بال جبرئیل صفحہ 318)
مطلع اورہر ثانی مصرعہ میں ایک حرف زائد۔
بعض جگہ علامہ اقبال نے اس وزن کوپورے احتیاط کے ساتھ برتاہے
جب عشق سکھاتاہے، آداب خودآگاہی
یارب دل مسلم کووہ زندہ تمنادے
یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہریک دانہ
پھرباد بہارآئی، اقبال غزلخواں ہوا
افلاک سے آتاہے نالوں کا جواب آخر
وغیرہم۔
اقبال کاوہ کلام جواس وزن میں ہے اوردولخت میں پایاجاتاہے اسے دوسرے اوزان کے مضاعف میں تقطیع کیاجائے تویہ سقم بھی دورہوجائے گا۔درمیانی رکن یہاں آخری رکن کہلاتاہے۔تسبیغ یااذالہ کی صورت نکل آتی ہے۔گیان چندجین کے دیئے گئے وزن کو مضاعف بھی کرتے ہیں تب بھی یہ سقم باقی رہے گا۔اس لیے کہ مضاعف کی صورت میں مفاعَیلن سالم کی حیثیت سے آتاہے اورسالم پراضافۂ حرف ساکن جائزنہیں۔لہٰذا جدول میں دیاگیا وزن اقبال کی بعض نظموں اورغزلوں کے لئے غلط ثابت ہوتاہے۔
اقبال کی وہ نظمیں جن کے حشوین میں یاعوارض وضروب میں ایک ساکن حرف زائد طورسے لایاگیاہے ان کو ذیل کے اوزان میں تقطیع کیے جائیں۔
1)فعلن، فعِلن،فعلُن/فعلان
بحرمتدارک مسدس مخبون مسکن، مخبون،مخبون مسکن/مخبون مسکن اعرج یامذال
(2فَعلن، فعِلاتن فع/فاع
بحرعمیق مخبون مسکن، مخبون ،محجوف/محذوف مطموس یامربوع اعرج
اس کےعلاوہ بحررجز، بحربسیط،بحروسیع ،بحرسریع،مسدس مضاعف میں کلام ِ اقبال کوتقطیع کیاجاسکتاہےخوف طوالت کی وجہ سے ان کے اوزان مزاحف نہیں دیے جارہے ہیں۔
جدول نمبر 1وزن نمبرشمار15
فاعلاتن، مفاعلن،فعِلن/فعِلان
وزن کاصحیح املایوں لکھاجائے گا۔
فاعلاتن، مفاع لن،فعِلن/فعِلان
اصطلاحی نام ہوگا بحرخفیف سالم مخبون مخبون محذوف/مخبون محذوف مسکن یہ لکھنابھی صحیح ہے کہ اس کاآخری رکن فَعلن،فعلان،فعِلن میں سے کچھ بھی ہوسکتاہے ۔لیکن نہیں معلوم یہ وغیرہ کیاہے۔
گیان چندجین صاحب نے اس وزن کے آخری رکن کوابتر کہاہے۔یہاں یہ کہنابلکل صحیح ہے جبکہ نظم میں آخرتک رکن آخراسی التزام میں آتاجائے۔لیکن کہیں فَعلن اورفعِلن لایاجائے تویہ رکن (فَعلن) اصطلاحی طورپر مخبون محذوف مسکن کہلائے گا۔
نکتۂ دلپذیر تیرے لئے
کہہ گیا ہے حکیم قاآنی
(شیخ مکتب سے۔بال جبرئیل)
اس شعر کے پہلے مصرعہ کے آخر ی فعِلن عین بہ متحرک لایاگیاہے اوردوسرے مصرعہ کے آخرمیں فَعلن عین بہ سکون ،ان کوبالترتیب مخبون محذوف اور،مخبون محذوف مسکن اصطلاحی نام میں لایاجانا چاہئے۔
جدول نمبر 1 وزن نمبر شمار 16
متقارب ،مقبوض، اثلم شانزدہ رکنی۔
فعول۔فعلن،فعول،فعلن ،فعول،فعلن، فعول،فعلن
گیان چندجین صاحب اس کی وضاحت صفحہ نمبر 109 پریوں کی ہے ۔
اس وزن میں ہرمجموعے میں ان کے چندشعر ملتے ہیں ۔بانگ درا میں اس وزن میں کئی غزلیں کہی گئیں جن میں مشہورترین یہ ہے۔
زمانہ آیاہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہوگا
جین صاحب کواس وزن کے سمجھنے میں بعض لوگوں کی طرح بہت زبردست مغالطہ ہواہے ۔یہ وزن بحرمتقارب سے کسی صورت حاصل نہیں کیاجاسکتا لہٰذا اس وزن کے تحت جتنے بھی اشعاردیئے گئے ہیں وہ سب غیر حقیقی وزن میں ہوں گے۔مزید وضاحت سے پہلے یہ دیکھاجائے کہ یہ وزن آخرکس طرح حاصل ہوتاہے۔
1)بحرمنسرح مسدس، مخبون،مطوی،مرفوع مخبون مسکن (المضاعف)
وزن: مفاعِلن،فاعِ لات،فعلن
2)بحرمقتضب مثمن ،مرفوع مخبون، مرفوع مخبون مسکن، مرفوع مخبون،مرفوع مسکن (المضاعف)
وزن:فعول، فعلن، فعول،فعلن
نوٹ: فَعلن (مطوی مخبون مسکن )بھی ہوسکتاہے۔
3)بحررجز مسدس، مخبون، مرفوع،مخلع(جن وقطع)المضاعف
وزن:مفاعلن۔فاعلن۔فعولن
4)بحرسریع مسدس۔مخبون ،مخبون مرفوع،مکثوف(المضاعف)
وزن:مفاعلن،فاعلن،فعولن
5) بحرمجتث مسدس،مخبون،مکثوف مخبون، محذوف (المضاعف)
وزن: مفاعِ لن، فاعِ لات، فَعلن
مندرجہ بالا پانچوں اوزان اصول عروض سے حاصل ہوتے ہیں حقیقی اوزان ہیں۔گیان چندجین صاحب کے وزن کے ارکان نمبر2 بحرمقتضب کے تحت درج ہیں۔جین صاحب یافاروقی صاحب جتنے بھی اشعار اس وزن کے تحت دیے ہیں وہ سب ان مندرجہ بالااوزان میں بہ حسن وخوبی تقطیع ہوتے ہیں۔پھران کے اعداد وشماروتناسب سب غلط ہوئے۔
بانگ درا ،کی 5 نظمیں (47اشعار)
بال جبرئیل کی 1 نظم(10 اشعار)
ضرب کلیم کی 1 نظم(3اشعار)
ارمغان حجاز کی 1نظم (6اشعار)
یعنی کل 8نظمیں ، (66اشعار)بحرمتقارب میں ہے ہی نہیں۔
سن اے طلب گارِ درد پہلو! میں نازہوں تونیازہوجا۔
صفحہ 129 بانگ درا
زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشراٹھے گا گفتگو کا
ص 136 بانگ درا
الٰہی عقل خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سکھادے
ص 135، بانگ درا
زمانہ ایاہے بے حجابی کا ، عام دیدارِ یارہوگا
ص 140،بانگ درا
کل ایک شوریدہ خواب گاہ نبیﷺ پہ رو ررو کے کہہ رہاتھا
ص 162 بانگ درا۔
جوتھا نہیں ہے، جوہے نہ ہوگا، یہی ہےاک حرف محرمانہ
ص 421 بال جبرئیل
یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی، یہ بحث وتکرار کی نمائش
ص 599 ضرب کلیم
ضمیرمغرب ہے تاجرانہ، ضمیر مشرق ہے راہبانہ
ص 686 ارمغان حجاز
اسی سلسلے میں ایک اوربات عرض کرناہے کہ کچھ لوگ اس طرح کے اشعار کو ہشت حرفی ارکان میں تقطیع کرنے کی غیرمناسب کوشش کی ہے۔
آہنگ وعروض صفحہ نمبر 197 (کمال احمدصدیقی)
بحرجمیل،مفاعلاتن،مفاعلاتن،مفاعلاتن،مفاعلاتن،
افادات صفحہ نمبر 22پرخورشیدلکھنوی کے ایک مصرعہ کی تقطیع کو لے کر پوراایک تفصیلی واقعہ بیان کیاہے۔
قطع نظراس سے۔۔۔۔وہ مصرعہ مندرجہ بالااوزان میں تقطیع ہوتاہے۔جوانہوں نے ہشت حرفی ارکان میں کیاہے۔
نیام تیغ قضائے مبرم لقب ہے قاتل کی آستیں کا
جناب محقق طوسی سے بھی اس وزن کو لے کر زبردست تسامح ہواہے ۔دراصل ہشت حرفی ارکان قاطع ترنم ہوتے ہیں۔بلاتحقیق بلاتجزیہ اس طرح کے اوزان روایت پانے کی ایک وجہ یہ ہے جسے رشیدحسن خان "اردو کیسےلکھیں "میں خوب لکھاہے انجانے میں یاکسی وجہ سے کچھ لوگ بعض لفظوں کوغلط طور پرلکھنے لگتے ہیں ۔شروع شروع میں چندہی لوگ ہوتے ہیں، مگربعد کوانہیں دو چار یادس بیس کالکھاہوا سند بننے لگتاہے اوربہت سے لوگ غلطیاں کرنے لگتے ہیں"۔یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہواہے۔
جدول نمبر1۔وزن نمبرشمار19
متقارب مثمن ،اثلم۔
وزن:فَعلن،فعولن،فَعلن،فعولن
گیان چندجین اپنی وضاحت میں لکھاہے "کہ اس وزن میں فعولن جگہ فعولان لانا پسندیدہ نہیں۔خصوصاً پہلے فعولن کی جگہ لیکن اقبال دونوں جگہ لائے ہیں"۔
ساحل کی سوغات، خار وخس وخاک
یہ وزن بحرمتقارب سے حاصل ضرور ہوتاہے اس کاپہلارکن اثلم ضرورہے دوسرااورتیسرا رکن بالترتیب مقبوض ،سالم ،سالم ہے یعنی اصطلاحی نام میں زحاف قبض کاذکرنہیں ۔ان کی اس وضاحت سے ایک مضحکہ خیزبات بھی سامنے آتی ہے کہ وہ اس وزن کے آخری فعولن کو فعولانکرنے کو جائزسمجھتے ہیں۔جبکہ کسی بھی سالم رکن پرتسبیغ واذالہ کی اجازت نہیں ۔وہ چاہے حشومیں ہویاعروض وضرب میں اقبال کی اس غزل کوغلط طورسے تقطیع کیاگیاہے۔
دریا میں موتی! اے موج بیباک
ساحل کی سوغات! خارو خس وخاک
صحیح وزن:مفعول،فعلن/فعلان
نام: بحرمقتضب مربع المضاعف مرفوع مرفو ع مخبون مسکن /مطموس یامرفوع اعرج
جدول نمبر 1 وزن نمبر شمار 21
متدارک مخبون مقطوع شانزدہ رکنی
فعلن۔فعلن۔فعلن۔فعلن۔فعلن۔فعلن۔فعلن۔فعلن۔
یہ صحیح ہے کہ اس وزن کے آخر میں فعلن بہ سکون عین بہ عمل زحاف قطع محصول ہوتاہے جبکہ یہ مصرعہ کے آخر میں آتاہی جائے اگرایسا نہیں کہ ایک جگہ فعلن بہ متحرک عین اور ایک جگہ عین بہ سکون آیاتویہاں یہ مقطوع نہیں بلکہ مخبون مسکن کہلائے گا۔ اس وزن میں فعِلن کی جگہ فَعلن بہ آسانی لایاجاسکتاہے ایساکرنے سے شعر، نظم یاغزل ناموزوں نہیں ہوتے۔لہٰذا حشوین میں قطع کہیں بھی وارد نہیں ہوتا۔وزن کاصحیح نام ہوا۔ بحرمتدارک مخبون، مخبون مسکن مخبون،مخبون مسکن المضاعف یاشانزدہ رکنی۔
جدول نمبر1 وزن نمبر شمار 23
سرسی چھند:فعلن۔فعلن۔فعلن۔فعلن۔فعلن۔فعلن۔فعلن۔فاع
اسے بحرمتقارب ہفت رکنی کہاجاسکتاہے اگرجبکہ اردو میں ایساکہنے کارواج نہیں ہے۔یہاں اسے اقبال کے عروضی تجربے کے طورپردیکھا جاسکتاہے۔
جدول نمبر1،وزن نمبر شمار 24
رباعی: ہزج اخرب مقبوض ابتر
وزن:مفعول، مفاعلن،مفاعَیلن ،فع
رباعی کے وزن میں ابتر زحاف غلط تصرف ہے رکن مفاعَیلن میں ابتر سے فعولن حاصل ہوتاہے۔اسکاصحیح اصطلاحی نام لکھ کر اکتفا کردینا مناسب سمجھتاہوں ۔
اخرب،مقبوض،مکفوف، محبوب مخنق
اس گفتگو کاماحصل یہ ہے کہ دونوں ہی مضامین میں عروضی وفنی استنباط غلط روش پرہے اوزان اشعار کے جوجدول بتائے گئے ہیں اوران کا تناسب نکالاگیاہے منشورعروض کونظراندازکیاگیاہے۔ میں نے سائنٹفک تجزیے کی روشنی میں اس پورے جدول پرصریح بحث کی ہے۔جس سے یہ بات کھل کرسامنے آتی ہے کہ کلام اقبال چوبیس اوزان پرمشتمل کہناانتہائی عروضی وفنی ناواقفیت کابین ثبوت ہے۔
0 Comments