بحریں وزحافات درس بلاغت کاایک مضمون قسط ۱۵

 صفحہ نمبر116پرہی موصوف خوداپناایک شعر بھی درج فرمائے ہیں۔بروزن بحرہزج مثمن مقبوض۔
مفاعِلن، مفاعلن، مفاعِلن ،مفاعِلن۔
شعر
زمیں پہ ننھے منھے پانو کے نشاں ہیںجابہ جا
کنارِ بحرریت کامکان بن کے مٹ گیا۔
وزن مع اصطلاحی نام بالکل صحیح ہے۔مجھے بحث یہاں ان کے شعر ،وزن اور نام سے نہیں ہے بلکہ لگے ہاتھ یہ بتانا  مقصود ہے کہ اس شعر کے وزن کوبحررجزمثمن سے بھی حاصل کیاجاسکتاہے۔صرف اصطلاحی نام بحررجز مثمن مخبون ہوگا۔البتہ مجھے یہاں ایک وضاحت یہ بھی کرناہے کہ اگر یہ وزن بحرہزج سے حاصل کرلیاگیا ہے تواس مزاحف کے مفاعیل( مکفوف ) مفاعلن(مقبوض) کوایک دوسرے کی جگہ رکھاجاسکتاہے اوراس طرح ان پر عمل تخنیق فرماکر کئی اوراوزان بھی نکالے جاسکتے ہیں جن کا ایک غزل، یانظم ،شعرمیں جمع کرنادرست ہے۔اسی طرح بحررجز مثمن سے بھی حاصل کیے جانے والے مزاحف وزن میں مفاعِلن (مخبون) مفتعِلن(مطوی) اوران دونوں کی جگہ پرمفعولن رکھ کر یعنی عمل تسکین اوسط مزید اوزان برآمدکیے جاسکتے ہیں ایک میں یعنی بحرہزج میں عمل تخنیق کارفرماہے تودوسری میں یعنی بحررجزمیں عمل تسکین۔یہاں یہ احتمال ضروری ہوگاکہ بحرکاتعین پہلے شعریامطلع سے کیاجائے 
کہ کس بحرسے متعلق ہے پھر اس پر اس بحرکے تحت مزاحف کاعمل کیاجائے۔اورپھرتمام اشعار کوبھی اسی بحرکے مزاحف اوزان میں ہوناچاہئے چونکہ اس طرح کے مزاحف اوزان میں بحور کاخلط ملط ہوجانے کااندیشہ زیادہ ہوتاہے اورایسی صورت میں عمل زحافات کی عدم واقفیت کی وجہ سے ایساکرجاتے ہیں کہ بحر ہزج مثمن کے مزاحف ۔مفاعیل،مفاعلن اوربحررجزمثمن کے مزاحف مفتعلن مفاعلن مفعولن کوایک دوسرے کی جگہ رکھ جاتے ہیں جودرست نہیں ہے۔

صفحہ نمبر 117پربحرہزج مثمن اشتر مقبوض ؛ فاعِلن،مفاعِلن،فاعلن،مفاعلن
کے تحت ساقی فاروقی کاشعر درج ہے۔
اے ہواے خوش خبر،اب نویدِ سنگ دے
مرے جیب وآستیں ،میرے خوں سے رنگ دے
پہلے تواس شعرکو بحرہزج میں بتانا عروضی ناسمجھی ہے یہ وزن بحرہزج سے حاصل ہی نہیں کیاجاسکتا۔فاعلن(اشتر)جوصدروابتدا میں ہے درست ہے۔دوسرافاعلن جوحشودوم میں ورودہے قاعدۂ عروض میں جائزنہیں ہے۔ان کے دیے ہوئے وزن کاصحیح اصطلاحی نام یہ ہونے چاہیں۔
1)بحررجزمثمن: فاعِلن،مفاعِلن،فاعِلن ،مفاعِلن(مرفوع،مخبون ،مرفوع ،مخبون)
2)بحروسیع مثمن: فاعِلن،مفاعِلن،فاعِلن ،مفاعِلن(سالم،مخبون سالم ،مخبون)
3)بحررجزمثمن: فاعِلاتُ،فاعِلن،فاعِلات ،فاعِلن(مکفوف،سالم،مکفوف،سالم)
4)بحرمقتضب مثمن: فاعِ لاتُ،فاعِلن،فاعِلات ،فاعِلن(مطوی،مرفوع،مطوی،مرفوع)
ان مندرجہ بالا اوزان میں ساقی ؔفاروقی کاشعر بہ احسن تقطیع کیاجاسکتاہے۔
٭٭٭

صفحہ نمبر 117 پرمثنوی کی بحروں کے ذکرمیں کچھ اوزان غلط املوں سے درج ہیں۔ 
فاعِلاتن،مفاعلن،فعِلن/فَعلُن(بحرخفیف مسدس مطوی مخبون محذوف/مقطوع)
اس کا صحیح املایہ ہوناچاہئے۔
فاعِلاتن،مفاعِ لن،فعِلن/فَعلُن(اصطلاحی نام؛بحرخفیف مسدس سالم مطوی مخبون محذوف/مخبون محذوف مسکن یامخبون مقطوع)
ایک اورمثنوی کاوزن اسی صفحہ پریوں تحریرفرمائے ہیں
مفعول،مفاعِلن،فعولن/مفعولُن،فاعِلن،فعولن(جس کااصطلاحی نام بحرہزج مسدس اخرب، مقبوض، محذوف/اخرم، اشتر ،محذوف)
فاضل مصنف کے بحریں زحافات جیسے عالمانہ مضمون پرمجھے کچھ اعتراض ہے توبس یہ کہ وہ عروض کے مزاج کوسمجھے بغیر ہی تحریرفرماگئے ہیں ،نتیجتاً بہت ساری اغلاط درآگئے ہیں۔انہوں نے پہلے وزن کااصطلاحی نام توبالکل صحیح لکھا اوردوسرے کااتناہی غلط،جبکہ ان اوزان کوبہ غور دیکھنے سے صاف ظاہرہے کہ دوسراپہلے کارعایتی وزن ہے۔یہ بات توقابل غوروفکر ہے کہ ایک وزن میں اخرب مقبوض  لایاگیاہے تواس کے دوسرے وزن (یعنی رعایتی وزن) میں اخرم اوراشتر کیسے لایاجائے گااورپھر ان کومخلوط کس قاعدے کے بناپر کیاجائے گا۔یہ سراسر غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے۔دوسرے وزن کااصطلاحی نام"اخرب مقبوض مخنق،محذوف ہوناچاہئے،واضح ہواکہ اس وزن میں نہ زحاف خرم کاعمل ہے نہ شترکا۔
اسئ صفحہ پرایک وزن مفتعلن،مفتعلن،فاعِلن(بحرسریع مسدس مطوی مکشوف)میں درج ہے جبکہ اصطلاحی نام یہ ہوناچاہئے بحررجزمسدس مطوی 
مرفوع اوراس وزن کو بحرسریع مسدس مطوی مطوی مطوی مکشوف بتاناہوتو املا یوں ہوناچاہئے۔
مفتعلن،مفتعلن فاعِ لن
اوریہ وزن بحرکامل مسدس سے بھی حاصل کرلیاجاسکتاہے جس کا اصطلاحی نام محزول ،محزول،مضمر،مرفوع ہوتاہے۔
آگے اسی صفحہ پرکچھ اس طرح لکھاہے کہ
میرؔ کی کچھ مشہورمثنویاں 
متقارب مثمن اثرم،اثلم(فَعلُ فعولن فَعلُن فَعلُن) 
کی مختلف شکلوں میں (جن کاایک ہی نظم میں ملاناجائزہے)کہی گئی ہیں،
موصوف کویہ جان لینا چاہئے تھاکہ یہ وزن بحرمتقارب مثمن اثرم،مقبوض،مقبوض، سالم کے رعایتی وزن میں سے ہے۔،اس کی وضاحت بھی میں اسی مضمون میں بحرمیرؔمیں کردی ہے کہ اس وزن کے حشومیں اثلم کاذکردرست نہیں ہے۔

٭٭٭

Post a Comment

0 Comments