بحریں وزحافات درس بلاغت کاایک مضمون

بحریں وزحافات
درس بلاغت کاایک مضمون


آج کے اس جدیدیت کے دورمیں اوروہ بھی اب جبکہ آزاد نثری  نظموں کارواج عام چل رہاہو۔عروض جیسے خشک موضوع کی بحث چھیڑنا کسی جرات سے کم نہیں ہے اور کچھ موزوں طبع لوگ ہیں کہ کہ شاعری کے لیے علم عروض کاسیکھنا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ اس سے انکار نہیں کہ موزونی طبع خداکی 
بہت بڑی دین ہے ساتھ ہی ساتھ کلام میں مزید نکھارلانے کے لیے عروض کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ایک اچھا کلام ہرطرح کی فنی کمزوریوں سے مبراہوتاہےاور یہ جب ہی ممکن ہے کہ ایک شاعرکوموزونی طبع کے ساتھ دیگر فنی لوازمات کالحاظ رکھنابھی آئے۔اورعلم عروض سے بھی کماحقہ واقفیت حاصل ہو۔مولانا روم کاایک مشہورشعر
؎شعر می گویم بہہ از آب حیات
من نہ دانم فاعلاتن فاعلات
یہ معنی خیزشعربہتوں کوگمراہ کیا جب کہ یہ جانتے ہوئے کہ محض یہ ایک شاعرانہ خیال ہے لیکن عروض سے دامن بچانے والوں کواس شعر کااچھاآڑ مل گیا اوریہی وجہ ہے کہ ان کاکلام بلندپایہ ہونے کے باوجود بھی ناموزونیت کاشکارہونے سے بچ نہ سکا۔میروغالب واقبال جیسے قدآور شعرا کاکلام تک ایسی خامیوں سے مبرانہیں ہے۔اس بات سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ پہلے بھی شاعری کے لیے علم عروض کی اہمیت کوتسلیم کیاجاچکاہے اورآج بھی اس کی ضرورت کومحسوس کرتے ہوئے بہت سے اہل علم حضرات نے اس فن پر کافی کچھ  لکھنے کی کوشش بھی کی ہےاوراس میں مزید تحقیق کی اب بھی گنجائش موجود ہے حال میں اس فن پر بہت سارے مضامین ومقالات نظرنوازہوئے جواخبارات ورسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں اورکچھ کتب بھی اس حوالے سے منظرعام پر آگئی ہیں ان مضامین وکتب میں کچھ ایسی باتیں بھی  درآگئی ہیں جوگمراہ کن ہیں اگر بروقت ان کی نشاندہی کرکے تصحیح نہ کی جائے تو مزیدگمراہی کااندیشہ لاحق ہوتاہے اس بات کے پیش نظر راقم الحروف ایسے کچھ مضامین جوتنقیدی وتجزیہ یابحث کی گنجائش رکھتے  ہیں ۔اہل علم حضرات کے سامنے لانے کی کوشش کرتے رہاہے اس توقع کے ساتھ کہ وہ اس پر اپنی نظرغائرڈالیں گے۔
درس بلاغت"(تیسرا ایڈیشن 1997 قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان دہلی) میں ایک مضمون بہ عنوان بحریں وزحافات از شمس الرحمٰن فاروقی صاحب سپردقلم کیاگیا ہےموصوف اردوکے مایہ نازادیب ،معروف شاعر اورایک نہایت مستندومعتبر نقادہیں۔عروض جیسے خشک موضوع پربھی انہوں نے عالمانہ بحث کی ہے۔ہمارامقصدکسی کی بھی شخصیت کوزک پہنچانے کانہیں رہاہے بلکہ پورے استدلال کے ساتھ عالمانہ طرزپر کچھ عروض کے منافی موضوعات پر بحث کرناہے اور اس کافیصلہ قارئین کے سپردکرناہے۔میں پہلے ہی عرض کرچکاہوںکہ عروض جیسے خشک موضوع پہ لکھناکسی جرات سے کم نہیں۔اس کے باوجود بھی لوگ کچھ نہ کچھ لکھنے کی کوشش کررہے ہیں اس کوشش کی ستائش کرنااخلاقی قریضہ ہے اس لئے کہ اس طرح بھی اس فن کوزندہ رکھاجاسکتاہے۔فاروقی صاحب کے اس مضمون میں کوئی صفحہ ایساہی نہیں ہے جس میں کوئی نہ کوئی عروضی وفنی غلطی سرزدہوئی نہ ہو۔موصوف کامضمون بحریں وزحافات پرمشتمل ہے اور مضحکہ خیزبات یہ ہے کہ اس میں کسی بھی بحرووزن کااملاصحیح لکھاگیاہے اورنہ زحافات کاعمل ہی ڈھنگ سے کیاگیاہے۔
موصوف نمبر95پرکچھ بحریں غلط املوں سے درج ہیں۔
(1ٗبحرجدیدمسدس؛ فاعلاتن،فاعلاتن۔مستفعلن
2)بحرخفیف مسدس؛ فاعلاتن۔مستفعلن،فاعلاتن
3))بحرقریب مسدس؛ مفاعیلن مفاعیلن،فاعلاتن
4)بحرمجتث؛ ۔ مستفعلن،فاع لاتن،فاع لاتن
5)بحرمشاکل مسدس؛ فاعلاتن۔مفاعیلن مفاعیلن(دوبار)
ان تمام بحروں کاصحیح املا مع فک بحور ملاحظہ ہو۔
1)بحرجدیدمسدس؛فاعلاتن،فاعلاتن۔مس تفع لن
،سبب وتدسبب/سبب وتدسبب/سبب وتدسبب
2)بحرخفیف مسدس؛ فاعلاتن،مس تفع لن،فاعلاتن۔
سبب وتدسبب/سبب وتدسبب/سبب وتدسبب
3)بحرقریب مسدس؛مفاعیلن مفاعیلن،فاع لاتن
 وتدسبب سبب /وتدسبب سبب /وتدسبب سبب 
4)بحرمشاکل مسدس؛ فاع لاتن،مفاعیلن مفاعیلن،
وتدسبب سبب /وتدسبب سبب /وتدسبب سبب
5)بحرمجتث؛ مس تفع لن،فاعلاتن،(دوبار)
،سبب  وتدسبب /سبب  وتدسبب / 
یہ تمام بحریں دائرۂ متوافقہ سے نکلی ہیں۔سباعی ارکان سے تشکیل دیے گئے اس دائرے کے تمام ارکان متوافقہ ہوتے ہیں۔بحرنمبر1۔ 2اور5کےارکان میں وتد درمیان میں آیاہےاورطرفین میں سبب ۔۔ اسی طرح بحرنمبر 3اور4میں وتدشروع میںاورمابعد دوسبب آئے ہیں ۔اس نکتہ کونہ سمجھنے سے انہیں یہ مغالطہ ہواہے اوربحروں کے ارکان غلط املوں سے درج کیے گئے ہیں۔معلوم ہونا چاہئے کہ علم عروض علم ریاضی کی طرح ایک سائنٹفک علم ہے۔جس طرح سے ریاضی میں کسی غلط فارمولے سے حساب کریں گے توپورا حساب ہی چوپٹ ہوجائے اسی طرح جب کسی بحرووزن کااملاغلط ہوا تواس پرزحافات کاعمل بھی غلط طریقہ سے واردہوگااور اس طرح سے جوبھی مزاحف اوزان حاصل ہوں گے غیرحقیقی قراردیے جائیں گے۔کیسے ذرایہ بھی دیکھئے مثال سے واضح کیے دیتاہوں۔
اب دیکھئے فاروقی صاحب بحرجدید کے ارکان اس طرح تجویزکیے ہیں۔
فاعلاتن،فاعلاتن مستفعلن(سبب وتدسبب/سبب وتدسبب/سبب سبب وتد)
جبکہ دائرۂ متوافقہ سے نکلے ہوئے تمام ارکان متوافق ہوتے ہیں یعنی کہ رکن اول کاپہلاجزووتدہے تورکن دوم کاپہلاجزبھی وتد ہی  ہوناچاہئے یہی ترتیب رکن سوم وچہارم کی بھی ہوتی ہے۔
فاروقی صاحب کی بحرکاآخری رکن مستفعلن کے شروع میں دوسبب خفیف اورمابعد ایک وتدمجموع ہے جوکہ بالکل غلط ہے جبکہ بحرجدید مسدس کے آخری رکن مس تفع لن کے طرفین میں سبب خفیف اوردرمیان میں وتدمفروق ہے ۔اب ان کی تجویزکردہ بحرکے ارکان پرزحافات کاعمل کیاجائے توگمراہ کن نتائج ہی برآمدہوں گے مثلاً یہ وزن دیکھئے۔
فاعلاتن،فاعلاتن مفتعِلن اورجس کااصطلاحی نام بحرجدیدمسدس سالم سالم مطوی ہوگا جبکہ بات یہ ہے بحرجدید کے ارکان پرزحاف طے کاعمل دخل ہی نہیں ہے لہٰذا وزن غیرحقیقی قرارپائے گا(تفصیل آگے کےصفحات میں دیکھ سکتے ہیں)
صفحہ نمبر96تا99پرزحافات کابیان درج ہے اوروہ اتنے اختصار سے پیش ہے کہ بس صرف اجمال واشارات پراکتفاکیاگیا ہے کم ازکم موصوف کویہ لکھناضروری تھاکہ کونسے زحاف عام ہیں اورکونسے خاص۔ چونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں اکثرلوگ بھٹک جاتے ہیں۔
اسی صفحہ پرزحاف بترکی تعریف میں لکھاہے کہ مفاعیلن سے مفا اورفعولن سے فعو نکال دیں توصرف لن بچتاہے اسے فع سے بدل لیتے ہیں اوررکن کو ابترکہتے ہیں۔"
زحاف بتر حذف اورقطع کامجموعہ ہے یہ صحیح ہے کہ فعولن سے فع محصول ہوتاہے مفاعی لن سے فع۔اس سے ہرگزنہیں حاصل کیاجاسکتا موصوف کایہ لکھنا کہ بتر کے ذریعہ مفاعی لن سے مفاعی نکال دینے سے فع حاصل ہوگا۔صحیح نہیں ہے رکن مفاعی لن میں جوفع نظرآتاہے وہ دراصل مجبوب  مخنق کی شکل ہے۔
آگے اسی صفحہ پرتسکین کاذکرکرتے ہوئے لکھاہے کہ یہ تین طرح کی ہوتی ہیں،یعنی وہ یہ کہناچاہتے ہیں کہ زحاف تسکین ،زحاف تخنیق اورزحاف تشعیث سب ایک ہی عمل کے الگ الگ نام ہیں۔یہاں خودفاروقی صاحب
ایک بڑے مغالطہ کاشکارنظرآتےہیں ۔زحاف تسکین ایک الگ زحاف ہے اورزحاف تخنیق ایک الگ زحاف۔زحاف تخنیق رودکیؔ کے زمانے کی ہے اور زحاف تسکین محقق طوسی کی بعدکی ایجاد ۔ اوریہ دونوںعام زحاف ہیں یہ اوربات ہے کہ ان دونوں زحافات کے ذریعے متواترتین متحرک میں سے درمیانی متحرک کوساکن کیاجاتا ہے لیکن اس میں ایک امتیازروارکھاگیاہے وہ یہ ہے کہ تسکین اوسط صرف ایک رکن پرہوتاہے جیسے فعلاتن سے فعلاتن (مفعولن)مفتعلن یا مفتع لن سے(مفعولن)فعلن سے(فعلن)(بہ سکون عین) ان ہی اشکال کوتسکین یعنی مسکن کہتے ہیں اورایساعمل جودوارکان پرہوتاہے عمل تخنیق کہلاتاہے جیسے(مفاعیل ۔مفاعلن سے مفاعیلن ۔فاعلن اورمفعول۔مفاعیلن سے مفعولن ۔مفعولن، ایسی صورتوں کومخنق کہتے ہیں۔
اب رہی زحاف تشعیث کی بات تویہ بھی ایک الگ ہی زحاف ہے اوریہ عروض وضرب سے مخصوص ہے اور اس کاعمل بھی  صرف رکن فاعلاتن پرہی ہوتاہے جس سے فَعلاتن حاصل کرلیاجاتاہے ۔خواجہ محقق طوسی کے زحاف تسکین کی ایجادکے بعد زحاف تشعیث بیکارثابت ہوئی۔اوریہ زحاف تقریباً منسوخ ہی ہوگئی ہے ۔

Post a Comment

0 Comments