بحریں وزحافات درس بلاغت کاایک مضمون قسط نہم

صفحہ نمبر111پر بحرمتدارک کے سلسلے میں لکھاہے۔"اس بحرمیں بھی اس بات کی گنجائش ہے کہ سالم (فاعِلن) مخبون (فعِلن)اور مقطوع(فَعلُن) ارکان کوجس طرح چاہیں جمع کرسکتے ہیں بشرطیکہ ماترائیں برابررہیں"
یہ کوئی عروضی بحث نہیں ہوئی۔وہ یہ بات کسی عروضی جواز کے بغیرکہہ گئے۔عروضی جواز کے معنی ہرگزیہ نہیں کہ کسی کتاب یاکہیں سے امثال یاحوالے 
پیش کریں ۔ایساکرنا ایک حدتک ٹھیک ہے لیکن اس ضمن میں کوئی تکنیکی بات نہیں ہوگی۔جیسے کہ کہاگیاہے علم عروض علم ریاضی کی طرح ایک سائنٹفک علم  ہے۔اس کے وضع کردہ اصول ہیں،فارمولے ہیں۔پس اس کے تحت اصولوں کاصحیح اطلاق کریں توصحیح تنائج احذکئے جاسکتے ہیں،مزیداس پہ اس طرح کے امثال یاحوالے مل جاتے ہیں توغیرضروری تونہیں کہاجاسکتا۔سونے پہ سہاگہ کے مصداق ہوگا۔اور اس طرح سے پیشترکتابوں میں کوئی امثلہ ہی نہ ملی توکسی وزن کوجوباقاعدہ عروض استخراج کرلیاگیاہو غلط کہانہیں جاسکتا۔جوکوئی اس میں اپنے کلام کوموزوں کرناچاہے کرسکتاہےفاروقی صاحب کو یہاں اس بات کی وضاحت بھی کردینی چاہئے تھی مقطوع(فَعلُن)اورمخبون  فلعِن)کو ہررکن میں کس بناپر جمع کیاجاسکتاہے یہ صحیح ہے کہ بحرمتدارک کے مزاحف میں آنے والا آخری رکن فَعلُن(مقطوع)ضرورہے اوریہ نکتہ بھی خیال میںرہناچاہئے کہ عروض وضرب میں ہرجگہ فَعلُن(بہ سکون عین)آتاجائے تواسے مقطوع کہناہی درست ہوگا۔مگوصدروابتدا وحشوین میں یہ مقطوع نہیں ہوگا بلکہ مخبون  مسکن کہلائے گا۔اورایک بات واضح ہوجائے کہ اس وزن کے آخری رکن میں ایک جگہ فعِلن (مخبون )دوسری جگہ فَعلُن(بہ سکون عین)آئے تو اس کومخبون  مسکن کہنادرست ہوگا؟۔
اس صفحہ پرشہریار کاایک شعربحرمتدارک مثمن مقطوع مخبون  ؛    فَعلُن ،فعِلن،فعِلن،فَعلن
میں درج کیاہواہے؟
بنیادِ جہاں میں کجی کیوں ہے
ہرشے میں کسی کی کمی کیوں ہے
اس شعرکے وزن میں زحافات خبن،تسکین اوسط اورآخری رکن کے لیے قطع کاعمل بھی رواہوسکتاہے لیکن اس وزن کے شروع میں"قطع"کی بات کچھ جچتی نہیں۔زحافات کے محل استعمال کونہ سمجھنے کی وجہ سے عروض کی بعض کتابوں  اورمضامین میں اس طرح کی فاش غلطیوں کااعادہ ہوتارہاہے۔ظاہرہے کہ اس وزن میں مقطوع مخبون  کہنے کامطلب یہی ہے کہ اس کے صدروابتدامیں لایاگیا فَعلُن(بہ سکون عین)مقطوع ہے۔اگریہ کہاجائے کہ یہ صرف کوئی عروضی تسامح یانظرچوک ہوئی ہے  توتب بھی اس فن کے ساتھ سراسردھوکہ ہوا۔یہ عروضی تسامح نہیں کوتاہ فہمی ہے۔زحاف ،قطع کاعمل مختص بہ عروض وضرب ہے البتہ اس وزن کے آخری رکن میں نظرآنے والا فَعلُن کومقطوع کہے جانے میں کوئی اعتراض واردنہیں ہوگابشرطیکہ یہ  ہرجگہ آتے جائے۔اس ضمن میں کچھ مثالیں بھی صفحہ نمبر112پردی ہیں یہاں بھی جہاں جہاں فَعلُن (بہ سکون عین)آیاہے وہ مخبون  مسکن ہی ہے مقطوع ہرگزنہیں۔
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments