بحریں وزحافات درس بلاغت کاایک مضمون قسط ہشتم

صفحہ نمر110پر نواوزان کا نقشہ درج ہے (ان کے ساتھ اصطلاحی نام بڑھاکرلکھ رہاہوں)اوروہ یوں رقم طرازہیں کہ "اس بحر میںمیرکی غزلوں کی تفصیلی تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ عام طورپر ہرمصرعے کے پہلے حصہ میں مندرجہ ذیل نوشکلوں میں کوئی بھی شکل ہوگی اوردوسرے حصے میں بھی انہیں نومیں سے کوئی شکل ہوگی۔صرف ایک سبب خفیف کم ہوگا۔یہ فہرست ان تمام شکلوں کااحاطہ نہیں کرتی جومیرؔکے یہاں پائی جاتی ہیں۔یااصولاًممکن ہیں لیکن اس بحر کے تقریباً پچانوے فی صد اشعار کی تقطیع اس نقشے کی روشنی میں ہوسکتی ہے۔"
وہ نقشہ حسب ذیل ہے۔
1)فَعلُن۔فَعلُن۔فَعلُن۔فَعلُن۔( اثرم مقبوض مخنق مقبوض مخنق سالم مخنق) 
2)فَعلُن۔فَعلُن۔فَعلُ۔فَعولُن۔( اثرم مقبوض مخنق مقبوض مخنق سالم )
3)فَعلُن۔فَعلُ۔فَعولُن۔فَعلُن۔( اثرم مقبوض مخنق مقبوض  سالم مخنق)
4)فَعلُن۔فَعلُ۔فَعولُ۔فَعولُن۔( اثرم مقبوض مخنق مقبوض سالم)
5)فَعلُ۔فَعولُن۔فَعلُن۔فَعلُن۔( اثرم مقبوض  مقبوض مخنق سالم مخنق)
6)فَعلُ۔فَعولُن۔فَعلُ۔فَعولُن۔( اثرم مقبوض  مقبوض مخنق سالم )     
7)فَعلُ۔فَعولُ۔فَعولنُ۔فَعلُن۔( اثرم مقبوض  مقبوض  سالم مخنق )
8)فَعلُ۔فَعولُ۔فَعولُ۔فَعولُن۔( اثرم مقبوض  مقبوض  سالم ) 
9)فَعولُ۔فَعلُن۔فَعلُ۔فَعولُن۔(یہ وزن بحرمتقارب سے حاصل نہیں کیاجاسکتا
اب ہمیں یہ دیکھناہے کہ فاروقی صاحب بحرمیرؔکے تحت جوباتیں کہی ہیں وہ ازروئے عروض کہاں تک درست ہیں؟
ان کے دیے گئے اس نقشہ میں وزن نمبر 1 سے لے کر وزن نمبر 8تک بالکل صحیح ہے اوریہ بحرمتقارب کے اصل وزن (جونقشہ نمبر8پرہے))فَعلُ۔فَعولُ۔فَعولُ۔فَعولُن۔یعنی بحرمتقارب مثمن اثرم مقبوض مقبوض سالم سے بذریعہ عملِ تخنیق نمبر 1تا7 تک حاصل کرلیے جاتے ہیں۔         
اوروزن نمبر 9 بحرمتقارب سے حاصل ہی نہیں ہوتا اس وزن کے صدروابتدا میں "فعول" توقبض کے عمل سے لایا جاسکتاہے اورفعول"یہاں مقبوض بن کر آیاہے تو دوسرے رکن یعنی حشومیں فَعلُن کوکسی قاعدے سے بھی نہیں لایا جاسکتا کیوں کہ یہ فَعلن عمل تخنیق کے ذریعے حاصل نہیں کیاگیاہے اوراسے فَعلن"اثلم سمجھاجائے توبھی غلط ہوگا اس لیے کہ اثلم صدروابتدا میں ہی لایاجا سکتاہے اوراگر یہاں دوسرے رکن فَعلُ اثرم اورتیسرے رکن میں فعول مقبوض پر عمل تخنیق کی وجہ سے فَعلُن فَعلُ کی شکل اختیارکیے ہوئے ہیں توتسلیم کرنے میں بھی قباحت لازم ہے کہ اثرم صرف صدروابتدا میں آنے والا زحاف ہے اس طرح سے یہ وزن بحرمتقارب سے حاصل نہیں کیاجاسکتا یہ دراصل بحرمقتضب مثمن فعول۔فَعلُن،فاعِ فعولن/مرفوع مخبون  مرفوع مخبون  مسکن مطوی واصلم مخلع 
اوریا بحرکبیر مسدس: فعولُ               مفعولات فعولن(مرفوع مخبون  سالم مخلع)
اب بات یہ ہے کہ فاروقیؔ صاحب بحرمیرؔ کے تحت جوباتیں کہی ہیں وہ  ازروئے عروض کہاں تک درست ہیں؟ کیایہ بحرکسی دائرے سے وضع کی گئی ہے کیا ان کی بحرمیرؔجبکہ وہ عرض کرتے ہیں ارکان خماسی یاسباعی سے تشکیل دی گئی ہے اورکوئی بھی دائرہ ارکان خماسی یاسباعی سے کم یازائد نہیںہوگا۔ایک اہم بات اس میں یہ بھی ہے کہ دائرے سے صرف ایک بحروضع کی نہیں جاسکتی ۔پھران کی اس بحرمیں ایساکچھ نہیں تویہ خلاف قاعدہ عروض ہوا اوراس بحرکی کوئی عروضی حیثیت نہیں محض یہ کسی سے مرعوبیت کانتیجہ ہے قابل قبول نہیں۔اب سوال یہ بھی پیداہوتاہے کہ کیامیرؔجیساعالی مرتبت ذہین ایک سلجھاہواشاعرجسے شہنشاہ غزل کہاجاتاہے اپنے کلام کے لیے صحیح اوزان کاتعین نہیں کرسکا۔یاہمیں خود اس کاصحیح ادراک نہیں ہوپایا۔اوراگرمیرؔجیساشاعربھی ایساکچھ کرتا ہے تو اس کے اشعار کوگھسیٹ گھسیٹ کرموزوں بنانے کی چنداں ضرورت نہیں۔کسی شاعر کے کلام کوموزوں بنانے کی دھن میں قواعد عروض کوپھلانگ جانا کہاں کی دانشمندی اورچونکہ یہ میرؔکے اشعار ہیں اس لیے کسی نہ کسی طرح موزوں بنانے کی کوشش کریں یابہترطریقہ سے پرکھ کر دیکھیں ۔میرے خیال میں دوسراطریقہ زیادہ مناسب ہے اسی بات کی پیش نظر میرؔ کی ان غزلوں کاتجزیہ ہوناچاہئے جن کا موصوف نے ذکرکیاہے ان کے اس مضمون میں ان غزلوں کی تفصیل نہیں انہوں نے جووزن تجویزکیاہے اس کی روشنی میں یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اس طرح کے ہم ماترائیں رکھنے والے اوزان دوسری بحور سے حاصل کیے جاسکتے ہیں جوازروے عروض بالکل صحیح ودرست ہیں انہیں کے نقشہ میں دیے گئے اوزان میں سے ایک وزن نمبر 9 جوکہ بحرمتقارب سے حاصل نہیں ہوتا ہمیں البتہ اس کی برابر ماترائیں رکھنے والا وزن بھی بحررجزسے حاصل ہوتاہے جواسطرح سے  ہے۔ملاحظہ ہو۔
بحررجزمثمن:مخبون  مرفوع مخبون  مسکن مرفوع مخبون  مرفوع احذ یااحذمحذوف
وزن؛ مفاعِلن فَعلُن فعِلن فع
فاروقی صاحب کے دیے گئے اوزان (ان کے نمبرات بحررجزکے سامنے لکھ رہاہوں )کو بحررجز سے حاصل شدہ اوزان سے موازنہ کرکے دیکھیں توحقیقت سامنے آئے گی کہ صحیح کیاہے اورغلط کیاہے۔پھراس میں یہ اجازت بھی ہے کہ اصول معاقبہ کے تحت مفتعِلن کی جگہ مفاعِلن ، مفاعِلن کی جگہ مفتعِلن اوران دونوں کی جگہ مفعولن کوبہ آسانی رکھ سکتے ہیں اوروہ اوزان یہ ہیں۔
1)مفتعِلن،فعِلن فعِلن فع (8)
2)مفتعِلن،فعِلن فَعلن فع (7)
3)مفتعِلن،فعلن فعِلن فع (6)
4)مفتعِلن،فَعلن فَعلن فع (5)
5)مفاعِلن،فعِلن فعِلن فع
6)مفاعِلن،فعِلن فَعلن فع
7)مفاعِلن،فَعلن فعِلن فع (9)
8)مفاعِلن،فعلن فعلن فع
9)مفعولن،فعِلن فَعِلن فع (4)
10)مفعولن،فعِلن فَعلن فع (3)
11)مفعولن،فعلن فَعلن فع (2)
12)مفعولن،فَعلن فَعلن فع (1)
ان  سب کاشعر نظم یاغزل میں اجتماع کرلینا جائزودرست ہے۔
ان اوزان کے ساتھ اصطلاحی نام بڑھاکرنہیں لکھا اس میں کے ایک وزن کااصطلاحی نام اوپردیاگیاہے بس اتناسمجھ لیجئے کہ مندرجہ بالا اوزان میں مفاعِلن(مخبون ) مفتعِلن(مطوی)مفعولن(مطوی مسکن)فعِلن (مرفوع مخبون ) فَعلن (مرفوع مخبون  مسکن)فع(احذ محذوف یامرفوع احذ)اوراس فع کی جگہ فاع بھی رکھ سکتے ہیں بس آخری رکن کانام مرفوع مطموس ہوگایااسے احذمقصوربھی کہاجاسکتاہے۔
اورجووہ بحرمیرؔکےبنیادی وزن کے بارے میں کہتے ہیں کہ" انہیں نوشکلوں میں سے کوئی ایک جگہ ہوگی صرف ایک سبب خفیف کم ہوگا"۔تواسے بھی بحررجز سے بہ حسن وخوبی حاصل کیاجاسکتاہے اس کی بحرلیکن مسدس ہوگی۔
بحررجز مسدس مطوی مرفوع  مخبون  مرفوع مخبون  : مفتعِلن،فعِلن،فعِلن
اس پر بھی اصول معاقبہ اورعمل تسکین اوسط کے تحت وہی بارہ اوزان حاصل ہوجائیں گے۔جوکہ بحررجز مثمن سے استخراج پائے تھے اوراس طرح اس میں ایک سبب خفیف بھی کم ہوجائے گا،آخری رکن فعِلن یافَعلُن ہوگا پھران دونوں کی جگہ فعِلان (مرفوع مخبون  مذال یامخبول  اعرج)فَعلان (مطموس) بھی رکھنے کی سہولت ہے اوران سب کااجتماع بھی جائزہے۔
(نوٹ بحرمیر اس معنی میں کہناچاہتے ہیں کہ میرؔنے اسے اپنے کلام میں خوب استعمال کیاہے توکہیں ،کیامضائقہ ہے لیکن اصطلاحی نام وہی ہوگا جس بحرسے یہ استحراج پائے) 
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments