بحریں وزحافات درس بلاغت کاایک مضمون قسط چہارم

 صفحہ نمبر 106پرغالب کاشعریوں ہے۔
نفس قیس کہ ہے چشم وچراغ صحرا
نہ سہی شمع سیہ خانۂ لیلانہ سہی
بروزن فعِلاتن فعِلاتن فَعلُن(رمل مثمن مخبون  محذوف مقطوع)درج ہے۔
اس وزن کے آخرمیں فَعِلن (مخبون  محذوف)آیاہے جس پرعمل تسکین کرنے سے فَعلُن(بہ سکون عین)حاصل ہوگا۔
اوراس شکل کومخبون  محذوف مسکن کہاجائے گایہ چونکہ یہاں آخری رکن میں واردہواہےمحذوف مقطوع یاابتر بھی کہاجاسکتاہے بہتریہی ہے کہ مخبون  محذوف مسکن کہاجائے۔یہ ایک عام زحاف سے ہواجسے ہرجگہ بہ آسانی سے رکھاجاسکتاہے ۔فَعلُن (بہ سکون عین)رکن کے آخرمیں آتاہی جائے تواسے 
محذوف مقطوع (ابتر) کہنے میں کوئی ہرج نہیں ۔(اس کی تفصیل آنے والے صفحات میں ملاحظہ کیجئے)
٭٭٭

صفحہ نمبر 107میں رمل مسدس مخبون  محذوف فاعِلاتن فعِلاتن فعِلن میں غالب کایہ شعر ہے
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی
اوراس کی یوں بھی وضاحت کیے ہیں کہ " اس بحرمیں آخر ی رکن فعِلن یافَعلُن ہوسکتاہے اگرآخری رکن فَعلن ہوتوبحرکےنام میں"مقطوع کا اضافہ ہوجائے گا"
یہ بالکل درست ہے کہ آخری رکن کے فَعلُن کومحذوف مقطوع یاابترکہاجائے گا۔(اس رکن کووہ ابترنہیں کہاہے)اورکچھ لوگ ہیں کہ بحررمل میں زحاف بتر کاعمل ہی نہیں مانتے اورکوئی عروضی جوازپیش نہیں کرتے،اس کی مثال پیش کرتے ہوئے میں اپنی بات کو آگے بڑھاؤں گا ڈاکٹر زارعلامی عروضی میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں ان کی دوکتابیں "کلید عروض"اورمسلمات فن"بہت مشہورہیں فنی اورعروضی غلطیوں سے پاک سمجھی جاتی ہیں۔
ان کی تصانیف میں جوایک تسامح ہواہے میں نے اس کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے زحاف بتر کے سلسلے میں و ہ مانتے ہیں کہ "یہ زحاف حذف اورقطع کامرکب درست ہے مگراس زحاف کاعمل "فاعِلاتن"پرہوتاہی نہیں اوراس زحاف کابحررمل سے کوئی تعلق نہیں یہ زحاف محض فعولن سے متعلق ہے"(مسلمات فن ص99)
اور"کلیدعروض"کے صفحہ نمبر67 پرارکان مزاحف از مولف میں بحررمل کے رکن فاعِلاتن سے محذوف مقطوع کے تحت "فَعلُن"درج ہے تفصیل گوغیرضروری تھی لیکن مجھے یہاں اس وضاحت کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ بات واضح ہوجائے۔کسی بھی چھوٹی سی غلطی کونظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔اس لیے کہ فن عروض میں بڑے بڑے مغالطے ہوئے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے عروضی کتابوں میںاسطرح کی مثا لیں تومل جاتی ہیں لیکن مرامقصد یہاں صرف اتناہے کہ فاروقی صاحب کا یہ باب زحافات کے ضمن میں ہے اس لیے زحافات کی تعریف اوراس کاعمل واضح ہوناچاہئے تھا تاکہ عمل زحافات سمجھنے والے واضح طورسے سمجھ سکیں۔اسی طرح کہنے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ فعلن" خبن اورحذف پھرعمل تسکین کے ذریعے بہ آسانی سے حاصل ہوسکتاہے تواسے محذوف مقطوع یاابتر کہنے کی کیا ضرورت ہے یا جیسے کہ ڈاکٹرکمال احمدصدیقی اپنی کتاب آہنگ وعروض" کے صفحہ نمبر 65میں رقم طرازہیں کہ"فَعلُن"چونکہ مخبون  محذوف مسکن مزاحف کی حیثیت سے رمل میںمہیاہے اس لیے ناممکن العمل مقطوع محذوف/محذوف مقطوع تراشنے کی سعی کی ضرورت بھی نہیں "چلیے کہ یہ بات بھی صحیح ہے لیکن ان اوزان کوذراغورسے دیکھئے۔
فاعَلاتن/(فعِلاتن)  فعَلات ،فاعَلات              فَعلُن
(بحررمل مثمن سالم/(مخبون )مشکول۔،مکفوف۔محذوف مقطوع/ابتر)
2)فاعِلاتن/(فعِلاتن)فاعِلات ،فاعِلات فَعلُن
(بحررمل مثمن سالم/(مخبون )مکفوف۔،مکفوف۔محذوف مقطوع/ابتر)
یہاں اس رکن"فَعلُن"کومحذوف/ مقطوع(ابتر)نہیں کہاگیاتویہ وزن غیرحقیقی قرارپائے گا۔"فَعلُن"کومخبون  محذوف مسکن ہرگزنہیں کہاجاسکتا البتہ دوسری بحروں سے اس طرح کے ہم وزن ارکان مل توجائیں گے۔ چندمخصوص اوزان میں کچھ رعایتیں جوملتی ہیں وہ کیسے مل پائیں گے؟
اسی سلسلے میں ایک اوروضاحت ضروری ہے سمجھوکہ آخر کے دوارکان کچھ اس طرح ہیں،
فاعِلات فعِلن (مکفوف مخبون محذوف)جس میں حکم معاقبہ کی خلاف ورزی صاف ہے اس لیے اس طرح بحررمل سے یہ ارکان مزاحف نہیں حاصل کیے جاسکتے۔فاعِلاتن۔۔ فاعِلاتن کے تن  اورفامیں حکم معاقبہ ہے یعنی متوائی دو سببین خفیف کے ساکنوں کوبہ یک وقت گرانا ممنوع ہے ایک کوبرقرار رکھنالازمی ہے اس لیے یہاں کے فعِلن سے فَعلُن (بہ سکون عین یعنی مخبون  محذوف مسکن) حاصل ہونے کاسوال ہی نہیں پیداہوتا۔
اب ذرا ان ارکان مزاحف فاعِلاتن فَعلن کودیکھئے میرے بتائے ہوئے وزن کاتیسرااورچوتھارکن ہے تیسرے رکن کے فاعِلاتن پر"کف" کے عمل سے فاعِلات(مکفوف)حاصل ہوا۔اورچوتھے رکن کے فاعِلاتن پر"زحاف حذف" کے عمل سے فاعِلن حاصل ہوا۔اوراس فاعِلن پرعمل قطع کے ذریعے وتدآخر کے دومتحرک میں سےایک کوساقط کیاگیا توفالن بچایعنی فَعلُن (محذوف مقطوع /ابتر) مانوس رکن سے بدل لیاگیا اب یہ رکن ازروئے اصول عروض بالکل درست ہوا۔اوراس طرح حکم معاقبہ کی خلاف ورزی بھی نہیں ہوتی۔
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments