بحریں وزحافات درس بلاغت کاایک مضمون قسط ۱۳

صفحہ نمبر 115 پرموصوف رقم طراز ہیں کہ
آخری رکن مفاعیلن ہوتواس میں آخری ساکن حرف زیادہ کرناغلط ہے(یہ واحد بحرہے جس میں آخری ساکن حرف زیادہ کرناغلط ماناجاتاہے)
موصوف کویہاں بہت بڑاتسامح ہواہے صرف بحر ہزج کی بات ہی کیوں کسی بھی سالم رکن پرایک ساکن حرف زیادہ کرنا یعنی تسبیغ واذالہ کاعمل جائزنہیں جولوگ ایساکرتے ہیں وہ عروض کے مزاج سے واقف نہیں ہیں۔
٭٭٭٭٭
اسی صفحہ نمبر115پرمیرکاایک شعر
کچھ موج ہوا پیماں اے میر ؔنظر آئی
شایدکہ بہارآئی زنجیر نظر آئی
بروزن بحرہزج مثمن اخرب مفعولُ،مفاعِیلن، مفعولُ، مفاعیلن کے تحت درج ہواہے۔وزن تو بالکل صحیح ہے لیکن اس وزن کے اصطلاحی نام  میں صرف اخرب لکھ کرچھوڑدینادرست نہیں ،زحاف خرب ،حشوین میں واردنہیں ہوتا۔اس وزن کے حشواول مفاعیلن پرسالم کادھوکہ ضرورہوتاہے لیکن یہاں وہ سالم بن کرنہیں آیاہےاور اسی طرح حشودوم مفعول پراخرب کادھوکہ ہوتاہے یہ بھی یہاں ہرگز اخرب نہیں ہے۔دراصل یہ مفاعیل مفاعیل (مکفوف مکفوف)ہیں جس پر عمل تخنیق کی وجہ سے مفاعیل ۔مفعول کی صورت اختیارکیے ہوئے ہیں۔اس لیے اس وزن کااصطلاحی نام  ہوگا۔بحرہزج  مثمن اخرب مکفوف،مکفوف مخنق،سالم۔ فاروقیؔ صاحب کے اصطلاحی نام میں کف اورتخنیق کااشارہ نہیں ملتا۔مندرجہ بالامذکورہ وزن کا اصل وزن یہ ہوا۔مفعول۔مفاعیل۔مفاعیل۔مفاعیلن، اوراس پرعمل تخنیق کے ذریعہ مزیداوزان حاصل ہوں گے۔ ان تمام اوزان کاخلط جائزبھی ہوگا۔
1)مفعول،مفاعیل،مفاعیل،مفاعیلن (اخرب،مکفوف ،مکفوف،سالم)
2)مفعول،مفاعیل،مفاعیلن،مفعولن (اخرب،مکفوف ،مکفوف،سالم مخنق)
3)مفعول،مفاعیلن،مفعول،مفاعیلن (اخرب،مکفوف ،مکفوف مخنق،سالم )
4)مفعول،مفاعیلن،مفعولن،مفعولن (اخرب،مکفوف ،مکفوف مخنق،سالم مخنق)
5)مفعولن،مفعول،مفاعیل،مفاعیلن (اخرب،مکفوف مخنق ،مکفوف ،سالم )
6)مفعولن،مفعول،مفاعیلن،مفعولن (اخرب،مکفوف مخنق ،مکفوف ،سالم مخنق)
7)مفعولن،مفعولن،مفعول،مفاعیلن (اخرب،مکفوف مخنق ،مکفوف مخنق،سالم )
8)مفعولن،مفعولن،مفعولن،مفعولن (اخرب،مکفوف مخنق،مکفوف مخنق،سالم مخنق
ان تمام اوزان میں مفعولن کہیں بھی اخرم بن کر نہیں آیاہے ۔وہ مکفوف مخنق یاسالم مخنق ہے اس کے علاوہ اس وزن میں مفاعیل کی جگہ مفاعلن اور مفاعلن کی جگہ مفاعیل رکھ کر اورمزید اوزان حاصل کیے جاسکتے ہیں۔خوف طوالت کی وجہ سے یہاں صرف اصل اوزان تحریرکررہاہوں۔
1)مفعول،مفاعیل،مفاعیل،مفاعیلن (اس پر عمل تخنیق کیاجاچکاہے)
2)مفعول،مفاعیل،مفاعلن،مفاعیلن
3)مفعول،مفاعلن،مفاعلن،مفاعیلن
4)مفعول،مفاعلن،مفاعیل،مفاعیلن 
ان سب مندرجہ بالااوزان پرعمل تخنیق فرمانے سے جتنے بھی اوزان دریافت ہوں گے ان سب کو مخلوط کیاجاسکتاہے۔
اسی صفحہ پر مرزاغالبؔ کاشعر بروزن  بحرمنسرح مثمن اشتر؛ فاعلُن ،مفاعَیلن ،فاعِلن،  مفاعَیلن
یہاں بھی ان سے یہی مغالطہ ہواہے وزن صحیح ہے لیکن اصطلاحی نام میں صرف اشترلکھناعروضی اصول نہیں ہے،اس وزن میں  شتر،کف،قبض،تخنیق یعنی چارزحافات کاعمل ہواہے ۔فاروقیؔ صاحب کے اصطلاحی نام میں زحاف شترکے علاوہ دوسرے مزاحف کی وضاحت نہیں ہے۔جس کامطلب یہ ہے کہ انہیں بھی دھوکہ ہی ہواہے  کہ اس وزن کے تیسرے رکن فاعلن کواشترسمجھا اوردوسرے رکن مفاعَیلن کوسالم۔ جبکہ ایساہرگزنہیں ہے یہ دونوں رکن مفاعِیل ۔مفاعِلن (مکفوف،مقبوض) پربذریعہ عمل تخنیق مفاعَیلن ۔،فاعِلن (مکفوف،مقبوض مخنق)محصول ہوتے ہیں۔شتر صرف صدروابتدا کازھاف ہے جیساکہ اس وزن کے شروع میں آیاہے لیکن تیسرے رکن کا فاعِلن مقبوض مخنق ہے۔
اس کااصل وزن فاعِلن۔مفاعیل۔مفاعَیلن(بحرہزج مثمن اشتر مکفوف مقبوض سالم )ہے۔اس میں بھی قاعدۂ معاقبہ کے تحت مفاعیل کی جگہ مفاعلن۔اورمفاعلن کی جگہ مفاعیلُ رکھ کر یعنی۔
1)فاعِلن۔مفاعیل،مفاعیل۔مفاعَیلن
2)فاعِلن۔مفاعیل،مفاعِلن۔مفاعَیلن
3)فاعِلن۔مفاعِلن،مفاعلن۔مفاعَیلن
4)فاعِلن۔مفاعلن،مفاعیل۔مفاعَیلن
ان تمام پرعمل تخنیق فرماکر مزیداوزان محصول کرلیے جاسکتے ہیں اوران کاایک نظم ،غزل یاشعرمیں اجتماع کرنے سے کلام ناموزوں نہیں ہوتا(ایک ایک اصل وزن پرعمل تخنیق فرمانے سے کئی کئی اوزان دستیاب ہوتے ہیں)
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments